باب: جو شخص مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ وہ غمگین دکھائی دے
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Whoever sat down and looked sad when afflicted with a calamity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1299.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب نبی کریم ﷺ کے پاس حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر اورحضرت ابن رواحہ ؓ کے شہید ہونے کی خبر آئی تو آپ غمگین ہوکر بیٹھ گئے۔ میں دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہی تھی کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا جس نے حضرت جعفر ؓ کی عورتوں کے رونے دھونے کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ انھیں گریہ وزاری سے منع کرو، چنانچہ وہ گیا اورواپس آکر عرض کیا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر یہی فرمایا:’’انھیں منع کرو۔‘‘ وہ تیسری مرتبہ واپس آکر کہنے لگا:اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ کی قسم وہ ہم پر غالب آگئیں اور نہیں مانتیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:آخر کار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جا!ان کے منہ میں خاک جھونک دے۔‘‘ میں نے کہا:اللہ تیری ناک خاک آلود کرے! جس کام کاتجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا وہ بھی نہیں کرتا اور(بار بار آکر) رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتا۔
تشریح:
(1) اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ اگر مصیبت زدہ آدمی اپنے گھر میں صبر سے بیٹھ جائے اور لوگ آ کر تعزیت کرتے رہیں تو یہ جاہلیت والی رسم نہیں ہو گی جو شرعا ممنوع ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت جعفر ؓ کی شہادت پر اہل خانہ کی عورتوں کا رونا دھونا حرام کے درجے میں نہیں تھا کیونکہ اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مذکورہ آدمی کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر اس کام سے انہیں روکتے، کیونکہ آپ کا باطل کو برداشت کرنا اور اسے ثابت رکھنا محال ہے۔ اور نہ صحابیات ہی کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک فعل حرام پر اصرار کریں اور بار بار روکنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں۔ اور اس مباح قسم کے رونے سے اس لیے منع کیا جاتا تھا کہ وہ تحریم کے درجے تک نہ پہنچ جائیں۔ (3) حضرت عائشہ ؓ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی بھی قابل داد ہے کہ انہوں نے صحیح اندازہ لگایا اور اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص بھی عجیب ہے کہ نہ تو رسول اللہ ﷺ کی مرضی پر عمل کرتے ہوئے عورتوں کو سمجھا بھجا کر آہ و بکا سے روکتا ہے اور نہ اس سے باز ہی رہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بار بار آ کر اطلاع دے اور پریشان کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1264
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1299
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1299
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1299
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب نبی کریم ﷺ کے پاس حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر اورحضرت ابن رواحہ ؓ کے شہید ہونے کی خبر آئی تو آپ غمگین ہوکر بیٹھ گئے۔ میں دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہی تھی کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا جس نے حضرت جعفر ؓ کی عورتوں کے رونے دھونے کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ انھیں گریہ وزاری سے منع کرو، چنانچہ وہ گیا اورواپس آکر عرض کیا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر یہی فرمایا:’’انھیں منع کرو۔‘‘ وہ تیسری مرتبہ واپس آکر کہنے لگا:اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ کی قسم وہ ہم پر غالب آگئیں اور نہیں مانتیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:آخر کار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جا!ان کے منہ میں خاک جھونک دے۔‘‘ میں نے کہا:اللہ تیری ناک خاک آلود کرے! جس کام کاتجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا وہ بھی نہیں کرتا اور(بار بار آکر) رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ اگر مصیبت زدہ آدمی اپنے گھر میں صبر سے بیٹھ جائے اور لوگ آ کر تعزیت کرتے رہیں تو یہ جاہلیت والی رسم نہیں ہو گی جو شرعا ممنوع ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت جعفر ؓ کی شہادت پر اہل خانہ کی عورتوں کا رونا دھونا حرام کے درجے میں نہیں تھا کیونکہ اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مذکورہ آدمی کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر اس کام سے انہیں روکتے، کیونکہ آپ کا باطل کو برداشت کرنا اور اسے ثابت رکھنا محال ہے۔ اور نہ صحابیات ہی کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک فعل حرام پر اصرار کریں اور بار بار روکنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں۔ اور اس مباح قسم کے رونے سے اس لیے منع کیا جاتا تھا کہ وہ تحریم کے درجے تک نہ پہنچ جائیں۔ (3) حضرت عائشہ ؓ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی بھی قابل داد ہے کہ انہوں نے صحیح اندازہ لگایا اور اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص بھی عجیب ہے کہ نہ تو رسول اللہ ﷺ کی مرضی پر عمل کرتے ہوئے عورتوں کو سمجھا بھجا کر آہ و بکا سے روکتا ہے اور نہ اس سے باز ہی رہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بار بار آ کر اطلاع دے اور پریشان کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے یحیٰی ٰ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرہ نے خبر دی‘ کہا کہ میں نے عائشہ ؓ سے سنا‘ آپ نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ کو زید بن حارثہ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت ( غزوئہ موتہ میں ) کی خبر ملی‘ تو آپ ﷺ اس وقت اس طرح تشریف فرما تھے کہ غم کے آثار آپ کے چہرے پر ظاہر تھے۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور جعفر ؓ کے گھر کی عورتوں کے رونے کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں رونے سے منع کردے۔ وہ گئے لیکن واپس آکر کہا کہ وہ تو نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ انہیں منع کردے۔ اب وہ تیسری مرتبہ واپس ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قسم اللہ کی وہ تو ہم پر غالب آگئی ہیں ( عمرہ نے کہا کہ ) حضرت عائشہ ؓ کو یقین ہوا کہ ( ان کے اس کہنے پر ) رسول کریم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میں نے کہا کہ تیرا برا ہو۔ رسول کریم ﷺ اب جس کام کا حکم دے رہے ہیں وہ تو کروگے نہیں لیکن آپ ﷺ کو تکلیف میں ڈال دیا۔