باب: بڑوں کے ساتھ بچوں کا بھی نماز جنازہ میں شریک ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The offering of the funeral salat (prayer) by boys along with the men)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1326.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے پاس تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا:اسے گزشتہ رات دفن کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے اس پر نماز جنازہ ادا کی۔
تشریح:
(1) قبل ازیں امام بخارى ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب صفوف الصبيان مع الرجال في الجنائز)’’نماز جنازہ میں مردوں کے ساتھ بچوں کا صف بندی کرنا‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ جنازہ پڑھتے وقت بچوں کو مردوں سے علیحدہ صف بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ان کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے۔ وہاں ان کا نماز پڑھنا بھی ذکر ہوا تھا لیکن اس کی حقیقت ثانوی اور ضمنی تھی۔ اس مقام پر مستقل طور پر بچوں کا مردوں کے ہمراہ نماز پڑھنا ذکر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے اکیلے نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتے۔ اگر پڑھیں گے تو میت کا حق ادا نہیں ہو گا، کیونکہ ان پر نماز فرض ہی نہیں تو ان کے نماز پڑھنے سے فرض کفایہ کیونکر ادا ہو سکتا ہے، اس لیے بچے نماز جنازہ مردوں کے ساتھ ہی ادا کر سکتے تھے۔ اس کے برعکس دوسری فرض نماز صرف بچے ادا کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت انس ؓ کا رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو جنازے کے ساتھ جانے کی فضیلت بیان کرنے کے بعد ذکر کیا ہے تاکہ وضاحت کی جائے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے میں بچے بھی شامل ہیں لیکن ان کے جنازہ پڑھنے سے فرض کفایہ ساقط نہیں ہو گا۔ والله أعلم۔(فتح الباري: 253/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1289
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1326
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1326
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1326
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے پاس تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا:اسے گزشتہ رات دفن کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے اس پر نماز جنازہ ادا کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) قبل ازیں امام بخارى ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب صفوف الصبيان مع الرجال في الجنائز)’’نماز جنازہ میں مردوں کے ساتھ بچوں کا صف بندی کرنا‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ جنازہ پڑھتے وقت بچوں کو مردوں سے علیحدہ صف بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ان کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے۔ وہاں ان کا نماز پڑھنا بھی ذکر ہوا تھا لیکن اس کی حقیقت ثانوی اور ضمنی تھی۔ اس مقام پر مستقل طور پر بچوں کا مردوں کے ہمراہ نماز پڑھنا ذکر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے اکیلے نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتے۔ اگر پڑھیں گے تو میت کا حق ادا نہیں ہو گا، کیونکہ ان پر نماز فرض ہی نہیں تو ان کے نماز پڑھنے سے فرض کفایہ کیونکر ادا ہو سکتا ہے، اس لیے بچے نماز جنازہ مردوں کے ساتھ ہی ادا کر سکتے تھے۔ اس کے برعکس دوسری فرض نماز صرف بچے ادا کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت انس ؓ کا رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو جنازے کے ساتھ جانے کی فضیلت بیان کرنے کے بعد ذکر کیا ہے تاکہ وضاحت کی جائے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے میں بچے بھی شامل ہیں لیکن ان کے جنازہ پڑھنے سے فرض کفایہ ساقط نہیں ہو گا۔ والله أعلم۔(فتح الباري: 253/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے‘ انہوں نے کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا‘ ان سے ابو اسحاق شیبانی نے‘ ان سے عامر نے‘ ان سے ابن عباس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ ایک قبر پر تشریف لائے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس میت کو گزشتہ رات میں دفن کیا گیا ہے۔ ( صاحب قبر مرد تھا یا عورت تھی ) ابن عباس ؓ نے کہا کہ پھر ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے صف بندی کی اور آپ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ کیونکہ ابن عباس اس واقعہ کے وقت بچے ہی تھے۔ مگر آپ ﷺ کے ساتھ برابر صف میں شریک ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amir (RA): Ibn Abbas (RA) (who was at that time a boy) said, "Allah's Apostle (ﷺ) came to a grave and the people said, 'He or she was buried yesterday.' " Ibn Abbas (RA) added, "We aligned behind the Prophet (ﷺ) and he led the funeral prayer of the deceased."