باب: اگر کسی عورت کا نفاس کی حالت میں انتقال ہو جائے تو اس پر نمازے جنازہ پڑھنا
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The offering of the funeral Salat of a woman who died during the delivery (of a child))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1331.
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو دوران زچگی میں فوت ہوئی تھی تو آپ اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔
تشریح:
حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے امام بخاری ؒ کا مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ نفاس میں مرنے والی عورت کو اگرچہ شہداء میں شمار کیا گیا ہے، پھر بھی اس کی نماز جنازہ مشروع ہے، لیکن شہید معرکہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ (فتح الباري:257/3) شہید معرکہ کی نماز جنازہ بھی مشروع ہے لیکن ضروری نہیں، جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔ اگر عورت دوران نفاس میں مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھنا چاہیے اگرچہ وہ خود اس حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی تھی، کیونکہ مرنے کے بعد نفاس کے احکام ختم ہو جاتے ہیں۔ مرد اور عورت کے جنازے میں امام کو کہاں کھڑا ہونا چاہیے، اس کی وضاحت آئندہ ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1294
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1331
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1331
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1331
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو دوران زچگی میں فوت ہوئی تھی تو آپ اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے امام بخاری ؒ کا مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ نفاس میں مرنے والی عورت کو اگرچہ شہداء میں شمار کیا گیا ہے، پھر بھی اس کی نماز جنازہ مشروع ہے، لیکن شہید معرکہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ (فتح الباري:257/3) شہید معرکہ کی نماز جنازہ بھی مشروع ہے لیکن ضروری نہیں، جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔ اگر عورت دوران نفاس میں مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھنا چاہیے اگرچہ وہ خود اس حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی تھی، کیونکہ مرنے کے بعد نفاس کے احکام ختم ہو جاتے ہیں۔ مرد اور عورت کے جنازے میں امام کو کہاں کھڑا ہونا چاہیے، اس کی وضاحت آئندہ ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے یزیدین زریع نے‘ ان سے حسین معلم نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے سمرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں ایک عورت ( ام کعب ) کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا نفاس میں انتقال ہوگیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Samura bin Jundab (RA): I offered the funeral prayer behind the Prophet (ﷺ) for a woman who had died during child-birth and he stood up by the middle of the coffin.