Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Burial at night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوبکر صدیق ؓ رات میں دفن کئے گئے۔
1340.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھی جو رات دفن کیا گیا تھا۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ اٹھے اور آپ نے اس شخص کے متعلق دریافت کیا اور فرمایا:’’یہ کون ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا:یہ فلاں شخص ہے جسے گزشتہ رات دفن کیا گیا تھا، چنانچہ آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات پر ڈانٹا کہ آدمی کو رات کے وقت دفن کیا جائے، ہاں اگر کوئی مجبوری ہو تو الگ بات ہے۔ (صحیح ابن حبان:41/6) لیکن صحیح مسلم کی روایت میں اس کا سبب بیان ہوا ہے کہ کسی نے اپنے مرنے والے عزیز کا کفن اچھا نہ بنایا اور رات ہی دفن کر دیا تاکہ اس کی حرکت پر پردہ رہے، تو رسول اللہ ﷺ نے رات کو دفن کرنے سے منع کر دیا اور میت کو اچھا کفن پہنانے کی تلقین فرمائی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:2185(943)) اس روایت میں ایک اور سبب کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ نے اس گمان کی وجہ سے منع فرمایا کہ نماز جنازہ میں رات کے وقت لوگ کم تعداد میں شریک ہوں گے، لہذا اگر نماز جنازہ دن کے وقت پڑھ لی گئی ہو اور کسی عذر کی وجہ سے رات کو دفن کرنا پڑے تو ایسا کرنا ممنوع نہیں۔ مذکورہ حدیث سے بھی رات کے وقت دفن کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق لوگوں سے کوئی باز پرس نہیں کی تھی، بلکہ آپ کو اطلاع نہ دینے کی بنا پر انہیں پوچھا تھا، اس لیے رات کے وقت دفن کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو رات کے وقت دفن کیا تھا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:346/3) امام بخاری ؒ نے رات کے وقت جواز دفن ثابت کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے، تاہم اگر دن کے وقت دفن کرنا شہرت و ریا کاری کے پیش نظر ہو تو شرعا یہ عمل بھی پسندیدہ نہیں۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1303
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1340
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1340
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1340
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صبح سے پہلے دفن کیا گیا تھا۔ (صحیح البخاری،الجنائز،حدیث:1387) البتہ مذکورہ الفاظ کو مصنف ابن ابی شیبہ میں بیان کیا گیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:3/346)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھی جو رات دفن کیا گیا تھا۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ اٹھے اور آپ نے اس شخص کے متعلق دریافت کیا اور فرمایا:’’یہ کون ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا:یہ فلاں شخص ہے جسے گزشتہ رات دفن کیا گیا تھا، چنانچہ آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات پر ڈانٹا کہ آدمی کو رات کے وقت دفن کیا جائے، ہاں اگر کوئی مجبوری ہو تو الگ بات ہے۔ (صحیح ابن حبان:41/6) لیکن صحیح مسلم کی روایت میں اس کا سبب بیان ہوا ہے کہ کسی نے اپنے مرنے والے عزیز کا کفن اچھا نہ بنایا اور رات ہی دفن کر دیا تاکہ اس کی حرکت پر پردہ رہے، تو رسول اللہ ﷺ نے رات کو دفن کرنے سے منع کر دیا اور میت کو اچھا کفن پہنانے کی تلقین فرمائی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:2185(943)) اس روایت میں ایک اور سبب کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ نے اس گمان کی وجہ سے منع فرمایا کہ نماز جنازہ میں رات کے وقت لوگ کم تعداد میں شریک ہوں گے، لہذا اگر نماز جنازہ دن کے وقت پڑھ لی گئی ہو اور کسی عذر کی وجہ سے رات کو دفن کرنا پڑے تو ایسا کرنا ممنوع نہیں۔ مذکورہ حدیث سے بھی رات کے وقت دفن کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق لوگوں سے کوئی باز پرس نہیں کی تھی، بلکہ آپ کو اطلاع نہ دینے کی بنا پر انہیں پوچھا تھا، اس لیے رات کے وقت دفن کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو رات کے وقت دفن کیا تھا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:346/3) امام بخاری ؒ نے رات کے وقت جواز دفن ثابت کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے، تاہم اگر دن کے وقت دفن کرنا شہرت و ریا کاری کے پیش نظر ہو تو شرعا یہ عمل بھی پسندیدہ نہیں۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
سید نا ابو بکر ؓ رات کے وقت دفن کیے گئے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے شیبانی نے‘ ان سے شعبی نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھی جن کا انتقال رات میں ہوگیا تھا ( اور اسے رات ہی میں دفن کردیا گیا تھا ) آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ نے ان کے متعلق پوچھا تھا کہ یہ کن کی قبر ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ فلاں کی ہے جسے کل رات ہی دفن کیا گیا ہے۔ پھر سب نے ( دوسرے روز ) نماز جنازہ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بلکہ بہتر یہی ہے کہ رات ہو یا دن مرنے والے کے کفن دفن میں دیرنہ کی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) offered the funeral prayer of a man one night after he was buried, he and his companions stood up (for the Prayer). He had asked them about him before standing, saying, "Who is this?" They said, "He is so and so and was buried last night." So all of them offered the funeral prayer.