Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Who should be put first in the Lahd)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ بغلی قبر کو لحد اس لیے کہا گیا کہ یہ ایک کونے میں ہوتی ہے اور ہر «جائر» (اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی چیز) کو ملحد کہیں گے۔ اسی سے ہے (سورۃ الکہف میں) لفظ «ملتحدا» یعنی پناہ کا کونہ اور اگر قبر سیدھی (صندوقی) ہو تو اسے «ضريح» کہتے ہیں۔
1348.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ ہی سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ شہدائے اُحد کے متعلق فرماتے تھے ’’ان میں سے کس کو قرآن زیادہ یاد ہے؟‘‘ جب کسی آدمی کی طرف اشارہ کیا جا تا تو اسے لحد میں اس کے ساتھی سے پہلے رکھتے۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: میرے والد گرامی اور چچا محترم کو ایک ہی سفید و سیاہ دھاری دار موٹی چادر میں کفن دیا گیا تھا۔ سلیمان بن کثیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے زہری نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے اس نے بتایا جس نے حضرت جابر ؓ سے سنا تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ضرورت کے وقت دو آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنا پڑے تو ان میں سے جسے قرآن زیادہ یاد ہو اسے لحد میں آگے اور پہلے رکھا جائے اور دوسرے کو بعد میں اور اس کے پیچھے رکھا جائے، جیسا کہ زندگی میں جماعت کے وقت جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے امام بنایا جاتا ہے اور دوسرے لوگ اس کے مقتدی ہوتے ہیں۔ (فتح الباري:271/3) (2) اس حدیث سے قرآن کریم کے قاری اور حافظ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، ان کے ساتھ علوم شریعت کے ماہر اور تقویٰ و طہارت کے حامل کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:272/3) (3) طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی اور چچا محترم کو دو چادروں میں کفن دیا گیا تھا۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو ممکن ہے کہ ایک چادر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو اور ایک ایک حصہ بطور کفن استعمال کیا گیا ہو۔ (4) واضح رہے کہ جنہیں ایک چادر میں کفن دیا گیا انہیں دفن بھی اکٹھا کیا گیا تھا اور روایت مذکور میں حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کے ساتھ عمرو بن جموح کو کفن دیا گیا تھا۔ یہ حضرت جابر ؓ کے چچا نہیں بلکہ چچا زاد بھائی تھے۔ آپ نے تعظیم و تکریم کے طور پر انہیں چچا کہا ہے۔ (فتح الباري:275/3) (5) آخر میں امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث کا ایک طریق بیان کیا ہے، ان میں فرق یہ ہے کہ پہلی حدیث میں لیث نے امام زہری اور حضرت جابر ؓ کے درمیان ایک واسطہ عبدالرحمٰن بن کعب ذکر کیا ہے جبکہ دوسری حدیث میں امام اوزاعی نے اس واسطے کو حذف کر دیا ہے اور سلیمان مذکور نے مجہول واسطہ ذکر کیا ہے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1311
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1348
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1348
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1348
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
لحد کے معنی ہیں: ایک طرف ہٹ جانا۔ دین سے ایک طرف ہٹ جانے والے کو ملحد کہا جاتا ہے۔ قبر کی لحد بھی درمیان سے ہٹ کر ایک طرف ہوتی ہے، اس لیے اسے لحد کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں قبر کے درمیان گڑھا کھودنے کو "شق" کہتے ہیں جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ بغلی قبر کو لحد اس لیے کہا گیا کہ یہ ایک کونے میں ہوتی ہے اور ہر «جائر» (اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی چیز) کو ملحد کہیں گے۔ اسی سے ہے (سورۃ الکہف میں) لفظ «ملتحدا» یعنی پناہ کا کونہ اور اگر قبر سیدھی (صندوقی) ہو تو اسے «ضريح» کہتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ ہی سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ شہدائے اُحد کے متعلق فرماتے تھے ’’ان میں سے کس کو قرآن زیادہ یاد ہے؟‘‘ جب کسی آدمی کی طرف اشارہ کیا جا تا تو اسے لحد میں اس کے ساتھی سے پہلے رکھتے۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: میرے والد گرامی اور چچا محترم کو ایک ہی سفید و سیاہ دھاری دار موٹی چادر میں کفن دیا گیا تھا۔ سلیمان بن کثیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے زہری نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے اس نے بتایا جس نے حضرت جابر ؓ سے سنا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ضرورت کے وقت دو آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنا پڑے تو ان میں سے جسے قرآن زیادہ یاد ہو اسے لحد میں آگے اور پہلے رکھا جائے اور دوسرے کو بعد میں اور اس کے پیچھے رکھا جائے، جیسا کہ زندگی میں جماعت کے وقت جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے امام بنایا جاتا ہے اور دوسرے لوگ اس کے مقتدی ہوتے ہیں۔ (فتح الباري:271/3) (2) اس حدیث سے قرآن کریم کے قاری اور حافظ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، ان کے ساتھ علوم شریعت کے ماہر اور تقویٰ و طہارت کے حامل کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:272/3) (3) طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی اور چچا محترم کو دو چادروں میں کفن دیا گیا تھا۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو ممکن ہے کہ ایک چادر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو اور ایک ایک حصہ بطور کفن استعمال کیا گیا ہو۔ (4) واضح رہے کہ جنہیں ایک چادر میں کفن دیا گیا انہیں دفن بھی اکٹھا کیا گیا تھا اور روایت مذکور میں حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کے ساتھ عمرو بن جموح کو کفن دیا گیا تھا۔ یہ حضرت جابر ؓ کے چچا نہیں بلکہ چچا زاد بھائی تھے۔ آپ نے تعظیم و تکریم کے طور پر انہیں چچا کہا ہے۔ (فتح الباري:275/3) (5) آخر میں امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث کا ایک طریق بیان کیا ہے، ان میں فرق یہ ہے کہ پہلی حدیث میں لیث نے امام زہری اور حضرت جابر ؓ کے درمیان ایک واسطہ عبدالرحمٰن بن کعب ذکر کیا ہے جبکہ دوسری حدیث میں امام اوزاعی نے اس واسطے کو حذف کر دیا ہے اور سلیمان مذکور نے مجہول واسطہ ذکر کیا ہے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
لحد کواس لیے یہ نام دیا جا تا ہے کہ وہ ایک کنارے میں ہوتی ہے۔ ہر ظالم ملحد ہے۔ قرآن میں مُلْتَحَدًاکے معنی "جائےپناہ"ہیں۔ اگر کنارے کے بجائے سیدھی ہوتو اسے ضریح کہتے ہیں۔
وضاحت : لحد کے معنی ہیں۔ ایک طرف ہٹ جانا۔ دین سےایک طرف ہٹ جانے والے کو ملحد کہا جا تا ہے۔ قبر کی لحد بھی درمیان سے کر ایک طرف ہوتی ہے، اس لیے اسے لحد کہا جا تا ہے اس کے مقابلے میں قبر کے درمیان گڑھا کھودنے کو "شق"کہتے ہیں جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہوگی۔
حدیث ترجمہ:
پھر ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی۔ انہیں زہری نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ پوچھتے جاتے تھے کہ ان میں قرآن زیادہ کس نے حاصل کیا ہے؟ جس کی طرف اشارہ کردیا جاتا آپ لحد میں اسی کو دوسرے سے آگے بڑھاتے۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ میرے والد اور چچا کو ایک ہی کمبل میں کفن دیا گیا تھا۔ اور سلیمان بن کثیر نے بیان کیا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا‘ ان سے اس شخص نے بیان کیا جنہوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا تھا۔
حدیث حاشیہ:
مسلک راجح یہی ہے جو حضرت امام نے بیان فرمایا کہ شہید فی سبیل اللہ پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
( Jabir bin Abdullah (RA) added): Allah's Apostle (ﷺ) used to ask about the martyrs of Uhud as to which of them knew more of the Qur'an." And when one of them was pointed out as having more of it he would put him first in the grave and then his companions. (Jabir added): My father and my uncle were shrouded in one sheet.