Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: What is said about committing suicide)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1363.
حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے،وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی دانستہ جھوٹی قسم اٹھائے تو وہ ویسا ہی ہوگا، جیسا اس نے کہا ہے اور جو شخص تیز ہتھیار سے خود کو مارڈالے، اس کواسی ہتھیار سے جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔‘‘
تشریح:
(1) حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے برچھی سے خود کو قتل کر لیا تھا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی، (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:2262(978)) لیکن سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھتا۔‘‘(سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1966) لیکن آپ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس سے نہیں روکا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اثرورسوخ رکھنے والے علماء اور مقتدا حضرات اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہو، کیونکہ ہمارے پاس اب اسے سزا اور تنبیہ کے لیے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ امام بخاری ؒ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے۔ (2) اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھانے کی دو صورتیں ہیں: ٭ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں یہودی ہوں یا نصرانی ہوں۔ یہ ایک قسم ہے۔ اگر توڑے گا تو کفارہ دے گا۔ اگر وہ جانتے ہوئے کام کرے گا کہ وہ واقعی یہودی ہو یا نصرانی ہو جائے تو ایسی صورت میں وہ دین اسلام سے خارج قرار پائے گا۔ اگر ایسی صورت نہیں تو اس قول بد کی شناعت و قباحت تو باقی رہے گی، لیکن وہ کافر نہیں ہو گا۔ ٭ اس دوسری ملت کی قسم اٹھائے کہ مجھے یہودیت یا نصرانیت کی قسم کہ ایسا کام کروں گا، اس وقت یہ قول جھوٹ پر محمول ہو گا۔ اس سے وہ کافر نہیں ہو گا، کیونکہ اس کے دل میں دوسرے مذہب کی تعظیم تو نہیں، تاہم قسم کے طور پر ایسا ایسا کہنا تعظیم پر دلالت ضرور کرتا ہے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1325
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1363
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1363
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1363
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے،وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی دانستہ جھوٹی قسم اٹھائے تو وہ ویسا ہی ہوگا، جیسا اس نے کہا ہے اور جو شخص تیز ہتھیار سے خود کو مارڈالے، اس کواسی ہتھیار سے جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے برچھی سے خود کو قتل کر لیا تھا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی، (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:2262(978)) لیکن سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھتا۔‘‘(سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1966) لیکن آپ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس سے نہیں روکا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اثرورسوخ رکھنے والے علماء اور مقتدا حضرات اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہو، کیونکہ ہمارے پاس اب اسے سزا اور تنبیہ کے لیے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ امام بخاری ؒ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے۔ (2) اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھانے کی دو صورتیں ہیں: ٭ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں یہودی ہوں یا نصرانی ہوں۔ یہ ایک قسم ہے۔ اگر توڑے گا تو کفارہ دے گا۔ اگر وہ جانتے ہوئے کام کرے گا کہ وہ واقعی یہودی ہو یا نصرانی ہو جائے تو ایسی صورت میں وہ دین اسلام سے خارج قرار پائے گا۔ اگر ایسی صورت نہیں تو اس قول بد کی شناعت و قباحت تو باقی رہے گی، لیکن وہ کافر نہیں ہو گا۔ ٭ اس دوسری ملت کی قسم اٹھائے کہ مجھے یہودیت یا نصرانیت کی قسم کہ ایسا کام کروں گا، اس وقت یہ قول جھوٹ پر محمول ہو گا۔ اس سے وہ کافر نہیں ہو گا، کیونکہ اس کے دل میں دوسرے مذہب کی تعظیم تو نہیں، تاہم قسم کے طور پر ایسا ایسا کہنا تعظیم پر دلالت ضرور کرتا ہے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے ثابت بن ضحاک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین پر ہونے کی جھوٹی قسم قصداً کھائے تو وہ ویسا ہی ہوجائے گا، جیسا کہ اس نے اپنے لیے کہا ہے اور جو شخص اپنے کو دھار دار چیز سے ذبح کرلے اسے جہنم میں اسی ہتھیارسے عذاب ہوتا رہے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Thabit bin Ad-Dahhak (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever intentionally swears falsely by a religion other than Islam, then he is what he has said, (e.g. if he says, 'If such thing is not true then I am a Jew,' he is really a Jew). And whoever commits suicide with piece of iron will be punished with the same piece of iron in the Hell Fire."