Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The dead children of Muslims)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا کہ جس کے تین نابالغ بچے مر جائیں تو یہ بچے اس کے لیے دوزخ سے روک (رکاوٹ) بن جائیں گے یا یہ کہا کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔
1381.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایاـ’’لوگوں میں سے جس کسی مسلمان کے تین بچے مرجائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور ایسا محض اس کی خاص رحمت کی بناء پر ہوگا جو وہ ان پر کرے گا۔‘‘
تشریح:
(1) صحیح مسلم میں ہے کہ انصار کا ایک بچہ فوت ہوا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس کے لیے تو جنت کی بشارت ہے، کیونکہ اس نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ کا بھی امکان ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے اس کی اہلیت رکھنے والوں ہی کو پیدا کیا ہے۔ (صحیح مسلم، القدر، حدیث:6768(2662)) اس حدیث کے پیش نظر بعض حضرات کا موقف ہے کہ مسلمانوں کی نابالغ اولاد کے متعلق توقف اختیار کیا جائے۔ لیکن امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مسلمانوں کی اولاد کا اپنے والدین کو جنت میں داخل کرنے کا ذکر ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ مسلمان اور ان کی اولاد جنت میں ہو گی اور مشرکین اپنی اولاد سمیت جہنم میں ہوں گے، پھر یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ﴾(الطّور21:52)’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان لانے میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔‘‘(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:439/7، رقم:11940، طبع دارالفکر) (2) حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے یا مسلمانوں کی اولاد کے متعلق آپ کو اس کے بعد مطلع کیا گیا کہ ان کا ٹھکانا جنت ہو گا۔ پیش کردہ روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جو کسی کے جنت میں جانے کا سبب ہو گا وہ خود بھی جنت میں جائے گا۔ (فتح الباري:310/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1342
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1381
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1381
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1381
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
یہ مطلق روایت انہی الفاظ کے ساتھ متصل سند سے ہمیں کسی کتاب میں دستیاب نہیں ہو سکی۔ مسند امام احمد کی ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے: "جس مسلمان ماں باپ کے تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں اللہ انہیں بچوں سمیت محض اپنے فضل سے جنت میں داخل فرمائے گا۔" (مسنداحمد:2/511) صحیح مسلم میں ہے کہ ایک عورت جس کے تین بچے دفن ہو چکے تھے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو نے جہنم سے بچنے کے لیے بہت مضبوط باڑ قائم کی ہے۔" (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6703(2636)) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ فوت ہوا تو انہوں نے گہرے رنج و الم کا اظہار کیا۔ انہیں تسلی دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کے تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں وہ قیامت کے دن اس کے لیے جہنم سے رکاوٹ بن جائیں گے۔" (فتح الباری:3/311)
اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا کہ جس کے تین نابالغ بچے مر جائیں تو یہ بچے اس کے لیے دوزخ سے روک (رکاوٹ) بن جائیں گے یا یہ کہا کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایاـ’’لوگوں میں سے جس کسی مسلمان کے تین بچے مرجائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور ایسا محض اس کی خاص رحمت کی بناء پر ہوگا جو وہ ان پر کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم میں ہے کہ انصار کا ایک بچہ فوت ہوا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس کے لیے تو جنت کی بشارت ہے، کیونکہ اس نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ کا بھی امکان ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے اس کی اہلیت رکھنے والوں ہی کو پیدا کیا ہے۔ (صحیح مسلم، القدر، حدیث:6768(2662)) اس حدیث کے پیش نظر بعض حضرات کا موقف ہے کہ مسلمانوں کی نابالغ اولاد کے متعلق توقف اختیار کیا جائے۔ لیکن امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مسلمانوں کی اولاد کا اپنے والدین کو جنت میں داخل کرنے کا ذکر ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ مسلمان اور ان کی اولاد جنت میں ہو گی اور مشرکین اپنی اولاد سمیت جہنم میں ہوں گے، پھر یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ﴾(الطّور21:52)’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان لانے میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔‘‘(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:439/7، رقم:11940، طبع دارالفکر) (2) حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے یا مسلمانوں کی اولاد کے متعلق آپ کو اس کے بعد مطلع کیا گیا کہ ان کا ٹھکانا جنت ہو گا۔ پیش کردہ روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جو کسی کے جنت میں جانے کا سبب ہو گا وہ خود بھی جنت میں جائے گا۔ (فتح الباري:310/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو ہریرۃ ؓعنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا؛ "جس شخص کے تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے حجاب بن جائیں گے یا فرمایا کہ وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالعزیزبن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مرجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے جوان بچوں پر کرے گا، ان کو بہشت میں لے جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
باب منعقد کرنے اور اس پر حدیث ابوہریرہ ؓ لانے سے امام بخاری ؓ کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جو نابالغی میں مرجائے وہ جنتی ہے‘ تب ہی تو وہ اپنے والدین کے لیے دوزخ سے روک بن سکیں گے۔ اکثر علماءکا یہی قول ہے اور امام احمد ؒ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہوگی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم﴾(الطور: 21)یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی اتباع کی ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جنت میں جمع کردیں گے۔وَقَالَ النَّوَوِيُّ أَجْمَعَ مَنْ يُعْتَدَّ بِهِ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ مِنْ أَطْفَالِ الْمُسْلِمِينَ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَتَوَقَّفَ فِيهِ بَعْضُهُمْ لِحَدِيثِ عَائِشَةَ يَعْنِي الَّذِي أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ بِلَفْظِ تُوُفِّيَ صَبِيٌّ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقُلْتُ طُوبَى لَهُ لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَلَمْ يُدْرِكْهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ يَا عَائِشَةَ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا الْحَدِيثَ قَالَ وَالْجَوَابُ عَنْهُ أَنَّهُ لَعَلَّهُ نَهَاهَا عَنِ الْمُسَارَعَةِ إِلَى الْقَطْعِ مِنْ غَيْرِ دَلِيلٍ أَوْ قَالَ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ أَطْفَالَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْجَنَّةِ۔(فتح الباري)یعنی امام نووی نے کہا کہ علماءاسلام کی ایک بڑی تعداد کا اس پر اجماع ہے کہ جو مسلمان بچہ انتقال کر جائے وہ جنتی ہے اور بعض علماءنے اس پر توقف بھی کیا ہے۔ جن کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ انصار کے ایک بچے کا انتقال ہوگیا‘ میں نے کہا کہ اس کے لیے مبارک ہو اس بچے نے کبھی کوئی برا کام نہیں کیا یا یہ کہ کسی برے کام نہیں اس کو نہیں پایا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اے عائشہ! کیا اس خیال کے خلاف نہیں ہوسکتا‘ بے شک اللہ نے جنت کے لیے بھی ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور دوزخ کے لیے بھی۔ اس شبہ کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید بغیر دلیل کے آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو اس بچے کے قطعی جنتی ہونے کا فیصلہ دینے سے منع فرمایا یا آپ ﷺ نے شاید اس کا اظہار اس وقت فرمایا ہو جب کہ آپ کو اطفال المسلمین کے بارے میں کوئی قطعی علم نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں آپ کو اللہ پاک نے بتلادیا کہ مسلمانوں کی اولاد یقینا جنتی ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA) Allah's Apostle (ﷺ) said, "Any Muslim whose three children died before the age of puberty will be granted Paradise by Allah because of His mercy to them."