Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Talking about the wicked among the dead)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1394.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:لعین ابو لہب نے ایک دفعہ نبی کریم ﷺ سے کہا تھا:سارا دن آپ کے لیے بربادی ہو۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی:’’ٹوٹ گئے ہاتھ ابو لہب کے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا۔‘‘
تشریح:
(1) کسی دینی منفعت کے پیش نظر کسی کو برا بھلا کہا جا سکتا ہے جیسا کہ کوئی ایسا شخص جس کی بری خصلتوں سے دوسرے کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کی بری خصلتیں اور برائیاں لوگوں پر واضح کرنی چاہئیں تاکہ وہ گمراہی سے بچ جائیں، البتہ جو شخص اہل تقویٰ سے ہے اس کی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیان کرنا سخت منع ہے۔ (2) حدیث کے راویوں پر جرح کرنا ان کے مرنے کے بعد بھی جائز ہے، کیونکہ اس سے حفاظتِ دین مقصود ہے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب التفسیر (حدیث: 4971) میں بیان کی جائے گی۔ إن شاء الله
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1358
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1394
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1394
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1394
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:لعین ابو لہب نے ایک دفعہ نبی کریم ﷺ سے کہا تھا:سارا دن آپ کے لیے بربادی ہو۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی:’’ٹوٹ گئے ہاتھ ابو لہب کے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) کسی دینی منفعت کے پیش نظر کسی کو برا بھلا کہا جا سکتا ہے جیسا کہ کوئی ایسا شخص جس کی بری خصلتوں سے دوسرے کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کی بری خصلتیں اور برائیاں لوگوں پر واضح کرنی چاہئیں تاکہ وہ گمراہی سے بچ جائیں، البتہ جو شخص اہل تقویٰ سے ہے اس کی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیان کرنا سخت منع ہے۔ (2) حدیث کے راویوں پر جرح کرنا ان کے مرنے کے بعد بھی جائز ہے، کیونکہ اس سے حفاظتِ دین مقصود ہے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب التفسیر (حدیث: 4971) میں بیان کی جائے گی۔ إن شاء الله
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیاانہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اعمش سےانہوں نے کہا کہ مجھ سے عمروبن مرہ نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیاکہ ابولہب نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ سارے دن تجھ پر بربادی ہو۔ اس پر یہ آیت اتری ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾یعنی ٹوٹ گئے ہاتھ ابولہب کے اور وہ خود ہی برباد ہوگیا۔
حدیث حاشیہ:
جب یہ آیت اتری:﴿وَاَنذِر عَشِیرَتَكَ الاَقرَبِینَ﴾(الشعراء: 214)یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا۔ تو آپ کوہ صفا پر چڑھے اور قریش کے لوگوں کو پکارا‘ وہ سب اکٹھے ہوئے۔ پھر آپ نے ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تب ابولہب مردود کہنے لگا تیری خرابی ہو سارے دن کیا تو نے ہم کو اسی بات کے لیے اکٹھا کیاتھا؟ اس وقت یہ سورت اتری﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ یعنی ابولہب ہی کے دونوں ہاتھ ٹوٹے اور وہ ہلاک ہوا۔ معلوم ہوا کہ برے لوگوں کافروں‘ ملحدوں کو ان کے برے کاموں کے ساتھ یاد کرنا درست ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: أَيْ وَصَلُوا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى مَنْعِ سَبِّ الْأَمْوَاتِ مُطْلَقًا وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ عُمُومَهُ مَخْصُوصٌ وَأَصَحُّ مَا قِيلَ فِي ذَلِكَ أَنَّ أَمْوَاتَ الْكُفَّارِ وَالْفُسَّاقِ يَجُوزُ ذِكْرُ مَسَاوِيهِمْ لِلتَّحْذِيرِ مِنْهُمْ وَالتَّنْفِيرِ عَنْهُمْ وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى جَوَازِ جَرْحِ الْمَجْرُوحِينَ مِنَ الرُّوَاةِ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا۔یعنی انہوں نے جو کچھ برائی بھلائی کی وہ سب کچھ ان کے سامنے آگیا۔ اب ان کی برائی کرنا بیکار ہے اور اس سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ اموات کو برائیوں سے یاد کرنا مطلقاً منع ہے اور پیچھے گزرچکا ہے کہ اس کا عموم مخصوص ہے اور اس بارے میں صحیح ترین خیال یہ ہے کہ مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر کرنا جائز ہے۔ تاکہ ان کے جیسے برے کاموں سے نفرت پیدا ہو اور علماءنے اجماع کیا ہے کہ راویان حدیث زندوں مردوں پر جرح کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) .: Abu Lahab, may Allah curse him, once said to the Prophet (ﷺ) , "Perish you all the day." Then the Divine Inspiration came: "Perish the hands of Abi Lahab! And perish he!" (111.1).