Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The sin of a person who does not pay Zakat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ براۃ میں) فرمایا کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آخر آیت «فذوقوا ما كنتم تكنزون» تک۔ یعنی اپنے مال کو گاڑنے کا مزہ چکھو۔آیت میں کنز کا لفظ ہے کنز اسی مال کو کہیں گئے جس کی زکوۃ نہ دی جائے۔اکثر صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ آیت اہل کتاب اور مشرکین اور مومنین سب کو شامل ہے۔امام بخاری نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض صحابہ نے اس آیت کو کافروں کے ساتھ خاص کیا ہے۔(وحیدی)
1403.
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن میں پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا:میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:(جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں (کہ یہ بخیلی ان کے حق میں اچھی ہے،نہیں بلکہ یہ ان کے حق میں انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔)
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا اس وعید کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ آیت کو تلاوت کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ آیات منکرین زکاۃ کے متعلق نازل ہوئی ہیں، (فتح الباري:342/3) یعنی یہ آیت کریمہ ان دولت مند اور مال دار حضرات کے متعلق نازل ہوئی ہے جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکاۃ ادا نہیں کرتے، بلکہ اپنی دولت کو بطور خزانہ جمع کرتے ہیں۔ آج سونے چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے۔ اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنا بنا کر رکھتے ہیں اور زکاۃ ادا نہیں کرتے، تو یہ نوٹ ان کے لیے دوزخ کے سانپ بن جائیں گے اور پھر انہیں گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ جس شخص کے پاس بھی سونا چاندی ہے اور وہ زکاۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے سونے چاندی کے پترے آگ کے بنائے جائیں گے، پھر دوزخ کی آگ میں انہیں خوب گرم کیا جائے گا اس کے بعد اس کے پہلوؤں، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2292(987)) ابن حبان کی روایت میں ہے کہ وہ سانپ اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے کہے گا کہ میں وہی خزانہ ہوں جسے تو دنیا میں چھوڑ آیا تھا حتی کہ وہ اس کی انگلیوں کو پھر اس کے پورے بازو کو چبائے گا حتی کہ اس کا پورا جسم نگل لے گا۔ (صحیح ابن حبان (ابن بلبان):49/8، طبع مؤسسةالرسالة) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اپنے مال سے زکاۃ نہ دینے والوں کو دونوں قسم کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ اس کا خزانہ کبھی سانپ کی شکل میں اسے ڈسے گا اور سونے چاندی کے پتروں کو بھی گرم کر کے اس کے جسم کو داغا جائے گا۔ (فتح الباري:341/3) (3) جو سانپ انہیں ڈسے گا وہ اس قدر زہریلا ہو گا کہ اس کے سر کا چمڑا اڑ چکا ہو گا۔ اس وجہ سے اسے گنجا کہا جائے گا، کیونکہ سانپ کے بال نہیں ہوں گے جو زہر کی وجہ سے اڑ چکے ہوں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1367
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1403
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1403
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1403
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ براۃ میں) فرمایا کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آخر آیت «فذوقوا ما كنتم تكنزون» تک۔ یعنی اپنے مال کو گاڑنے کا مزہ چکھو۔آیت میں کنز کا لفظ ہے کنز اسی مال کو کہیں گئے جس کی زکوۃ نہ دی جائے۔اکثر صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ آیت اہل کتاب اور مشرکین اور مومنین سب کو شامل ہے۔امام بخاری نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض صحابہ نے اس آیت کو کافروں کے ساتھ خاص کیا ہے۔(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن میں پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا:میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:(جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں (کہ یہ بخیلی ان کے حق میں اچھی ہے،نہیں بلکہ یہ ان کے حق میں انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔)
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کا اس وعید کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ آیت کو تلاوت کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ آیات منکرین زکاۃ کے متعلق نازل ہوئی ہیں، (فتح الباري:342/3) یعنی یہ آیت کریمہ ان دولت مند اور مال دار حضرات کے متعلق نازل ہوئی ہے جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکاۃ ادا نہیں کرتے، بلکہ اپنی دولت کو بطور خزانہ جمع کرتے ہیں۔ آج سونے چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے۔ اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنا بنا کر رکھتے ہیں اور زکاۃ ادا نہیں کرتے، تو یہ نوٹ ان کے لیے دوزخ کے سانپ بن جائیں گے اور پھر انہیں گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ جس شخص کے پاس بھی سونا چاندی ہے اور وہ زکاۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے سونے چاندی کے پترے آگ کے بنائے جائیں گے، پھر دوزخ کی آگ میں انہیں خوب گرم کیا جائے گا اس کے بعد اس کے پہلوؤں، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2292(987)) ابن حبان کی روایت میں ہے کہ وہ سانپ اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے کہے گا کہ میں وہی خزانہ ہوں جسے تو دنیا میں چھوڑ آیا تھا حتی کہ وہ اس کی انگلیوں کو پھر اس کے پورے بازو کو چبائے گا حتی کہ اس کا پورا جسم نگل لے گا۔ (صحیح ابن حبان (ابن بلبان):49/8، طبع مؤسسةالرسالة) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اپنے مال سے زکاۃ نہ دینے والوں کو دونوں قسم کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ اس کا خزانہ کبھی سانپ کی شکل میں اسے ڈسے گا اور سونے چاندی کے پتروں کو بھی گرم کر کے اس کے جسم کو داغا جائے گا۔ (فتح الباري:341/3) (3) جو سانپ انہیں ڈسے گا وہ اس قدر زہریلا ہو گا کہ اس کے سر کا چمڑا اڑ چکا ہو گا۔ اس وجہ سے اسے گنجا کہا جائے گا، کیونکہ سانپ کے بال نہیں ہوں گے جو زہر کی وجہ سے اڑ چکے ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو لوگ سونے اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آپ انھیں دردناک عذاب کی خبردیں۔ جس روز سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا، پھر اس کے ساتھ ان کے چہروں، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اور ان سے کہا جائے گا: ) یہ وہ ہے جس کو تم اپنی جانوں کے لیے خزانہ بناتے تھے اب تم خزانہ شدہ مال کا مزہ چکھو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے والد سے بیان کیا‘ ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰة نہیں ادا کی توقیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا۔ اس کی آنکھوں کے پاس دوسیاہ نقطے ہوں گے۔ جیسے سانپ کے ہوتے ہیں‘ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں سے اسے پکڑلے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور خزانہ ہوں۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اور وہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے وہ اس پر بخل سے کام لیتے ہیں کہ ان کا مال ان کے لیے بہتر ہے۔ بلکہ وہ برا ہے جس مال کے معاملہ میں انہوں نے بخل کیا ہے۔ قیامت میں اس کا طوق بناکر ان کی گردن میں ڈالا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
نسائی میں یہ الفاظ اور ہیں۔ ویکون کنز أحدکم یوم القیامة شجاعا أقرع یفرمنه صاحبه ویطلبه أنا کنزك فلا یزال حتی یلقمه أصبع۔یعنی وہ گنجا سانپ اس کی طرف لپکے گا اور وہ شخص اس سے بھاگے گا۔ وہ سانپ کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں۔ پس وہ اس کی انگلیوں کا لقمہ بنالے گا۔ یہ آیت کریمہ ان مالداروں کے حق میں نازل ہوئی جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرتے، بلکہ دولت کو زمین میں بطور خزانہ گاڑتے تھے۔ آج بھی اس کا حکم یہی ہے جو مالدار مسلمان زکوٰۃ ہضم کرجائیں ان کا یہی حشر ہوگا۔ آج سونا چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے جو چاندی اور سونے ہی کے حکم میں داخل ہے۔ اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنابناکر رکھتے اور زکوٰۃ نہیں ادا کرتے، ان کے وہی نوٹ ان کے لیے دوزخ کا سانپ بن کر ان کے گلوں کا ہار بنائے جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever is made wealthy by Allah and does not pay the Zakat of his wealth, then on the Day of Resurrection his wealth will be made like a bald-headed poisonous male snake with two black spots over the eyes. The snake will encircle his neck and bite his cheeks and say, 'I am your wealth, I am your treasure.' " Then the Prophet (ﷺ) recited the holy verses:-- 'Let not those who withhold . . .' (to the end of the verse). (3.180). ________