باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: A property from which the Zakat is paid is not Al-Kanz (hoarded-money))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
1405.
حضرت ابو سعید خدری ؓ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم (غلے) میں زکاۃ نہیں۔‘‘
تشریح:
(1) ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے اور پانچ اوقیہ میں دو سو درہم ہوتے ہیں جو ساڑھے باون تولے کے برابر ہیں۔ اس سے کم مقدار میں زکاۃ نہیں۔ اس طرح ایک وسق ساٹھ صاع کا ہے اور ایک صاع دو کلو اور سو گرام (100 گرام) کے برابر ہے۔ پانچ وسق چھ صد تیس (630) کلو گرام کے برابر ہے۔ اس سے کم مقدار غلے میں کوئی زکاۃ نہیں۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی کنز نہیں ہے، اس کا رکھنا جائز ہے، کیونکہ اس میں زکاۃ نہیں، اور جس مال سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی کنز نہیں جس پر وعید آئی ہے، کیونکہ اس پر مزید کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ اس لیے آیت کریمہ سے اس مال کو خاص کرنا ہو گا جس کی زکاۃ ادا کر دی گئی ہو، چنانچہ ابن عبدالبر جمہور کا موقف بیان کرتے ہیں کہ کنز مذموم وہ ہے جس کی زکاۃ نہ ادا کی جائے، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تو نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی تو گویا تو نے مال کے متعلق اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا۔‘‘(جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:618) (3) چند ایک دنیا سے بے رغبت حضرات کے علاوہ کسی نے بھی اس موقف سے اختلاف نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکاۃ ادا کر کے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں تو بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔ (سنن ابن ماجة، الزکاة، حدیث:1787)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1369
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1405
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1405
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1405
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
عنوان کے الفاظ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک موقوف حدیث ہے، آپ نے فرمایا کہ ہر وہ خزانہ جس کی زکاۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں اگرچہ وہ ساتوں زمینوں کے نیچے مدفون ہو۔ اور جس مال کی زکاۃ ادا نہ کی جائے وہ کنز ہے اگرچہ وہ زمین کے اوپر ہی پڑا ہو۔ (فتح الباری:3/344) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ سونے کے کنگن پہنا کرتی تھیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ کنز ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وعید سنائی ہے؟ آپ نے فرمایا: "اگر ان کی زکاۃ ادا کر دی جائے تو کنز نہیں ہے۔" (سنن ابی داؤد،الزکاۃ،حدیث:1564) یہ روایت اس موقف کی دلیل ہے کہ اگر کسی مال سے اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ کنز نہیں جس پر قرآن مجید میں دھمکی آئی ہے، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا حوالہ دیا ہے کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ممنوع کنز وہ ہے جس پر قرآن کریم میں وعید آئی ہے۔ اس کے لیے دو شرطیں ہیں: ٭ وہ مال نصاب کو پہنچ جائے۔ ٭ اس کی زکاۃ نہ ادا کی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مال نصاب سے کم ہے تو وہ ممنوع کنز نہیں، اسے اپنے پاس رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جو مال نصاب کو پہنچ جائے اور اس سے زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ بھی کنز نہیں، لہذا مستحقِ عذاب نہیں ہو گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس مال میں زکاۃ واجب نہیں وہ قابل معافی ہے، اسے کنز کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اور جس مال سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی قابل معافی ہے کیونکہ اس کا حق ادا کر دیا گیا ہے۔ اسے بھی کنز نہیں کہا جائے گا جس پر قرآن کریم میں وعید آئی ہے۔ (فتح الباری:3/344) واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش کردہ ارشاد نبوی کو خود ہی آگے متصل سند سے بیان کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔ دیکھیے: (حدیث: 1405)
کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم (غلے) میں زکاۃ نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے اور پانچ اوقیہ میں دو سو درہم ہوتے ہیں جو ساڑھے باون تولے کے برابر ہیں۔ اس سے کم مقدار میں زکاۃ نہیں۔ اس طرح ایک وسق ساٹھ صاع کا ہے اور ایک صاع دو کلو اور سو گرام (100 گرام) کے برابر ہے۔ پانچ وسق چھ صد تیس (630) کلو گرام کے برابر ہے۔ اس سے کم مقدار غلے میں کوئی زکاۃ نہیں۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی کنز نہیں ہے، اس کا رکھنا جائز ہے، کیونکہ اس میں زکاۃ نہیں، اور جس مال سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی کنز نہیں جس پر وعید آئی ہے، کیونکہ اس پر مزید کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ اس لیے آیت کریمہ سے اس مال کو خاص کرنا ہو گا جس کی زکاۃ ادا کر دی گئی ہو، چنانچہ ابن عبدالبر جمہور کا موقف بیان کرتے ہیں کہ کنز مذموم وہ ہے جس کی زکاۃ نہ ادا کی جائے، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تو نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی تو گویا تو نے مال کے متعلق اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا۔‘‘(جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:618) (3) چند ایک دنیا سے بے رغبت حضرات کے علاوہ کسی نے بھی اس موقف سے اختلاف نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکاۃ ادا کر کے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں تو بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔ (سنن ابن ماجة، الزکاة، حدیث:1787)
ترجمۃ الباب:
ارشاد نبوی ہے: "پانچ اوقیہ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن یزید نے حدیث بیان کی‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے یحیٰی بن ابی کثیر نے خبر دی کہ عمروبن یحییٰ بن عمارہ نے انہیں خبر دی اپنے والد یحیٰی بن عمارہ بن ابولحسن سے اور انہو ںابوسعید خدری ؓ سے انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰة نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰة نہیں ہے اور پانچ وسق سے کم ( غلہ ) میں زکوٰة نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ پانچ اوقیہ کے دو سو درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہوتی ہے‘ یہ چاندی کا نصاب ہے۔ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے صاع چار مد کا۔ مدایک رطل اور تہائی رطل کا۔ ہندوستان کے وزن ( اسی تولہ سیر کے حساب سے ) ایک وسق پکے ساڑھے چار من یا پانچ من کے قریب ہوتا ہے۔ پانچ وسق ساڑھے بائیس من یا 25 من ہوا۔ اس سے کم میں زکوٰۃ ( عشر ) نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Said (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "No Zakat is due on property mounting to less than five Uqiyas (of silver), and no Zakat is due on less than five camels, and there is no Zakat on less than five Wasqs." (A Wasqs equals 6O Sa's) & (1 Sa=3 K gms App.)