Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: To give objects of charity with the right hand)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1423.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس روز اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا :انصاف کرنے والا حکمران، وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں ٹکا رہتا ہو، وہ دو شخص جو اللہ کے لیے دوستی کریں، جمع ہوں تو اس کے لیے اور جدا ہوں تو اس کے لیے، وہ شخص جسے کوئی خوبرواور حسب ونسب والی عورت برائی کو دعوت دے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جو اس قدر پوشیدہ طورپر صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ ہوکہ دایاں ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے، ساتواں وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑیں۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انسان کو صدقہ وغیرہ دینے کا خود اہتمام کرنا چاہیے اور دیتے وقت اپنے دائیں ہاتھ سے دے اور اس قدر راز داری کے ساتھ ادا کرے کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔ یہ انداز پوشیدہ طور پر دینے میں انتہائی مبالغے پر مبنی ہے، بلکہ اس سے انتہائی خلوص اور للہیت مراد ہے۔ (2) واضح رہے کہ حدیث میں مذکور اعزاز صرف سات قسم کے لوگوں کے لیے خاص نہیں، بلکہ رحمت الٰہی کا یہ عالم ہے کہ دیگر احادیث میں اس قسم کے لوگوں کی تعداد تقریبا ستر تک پہنچتی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مختلف احوال و ظروف کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان فرمائی ہے۔ ان میں مرد یا عورت کے متعلق بھی حصر نہیں۔ بعض محدثین نے اس موضوع پر مستقل رسالے بھی لکھے ہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1386
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1423
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1423
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1423
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس روز اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا :انصاف کرنے والا حکمران، وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں ٹکا رہتا ہو، وہ دو شخص جو اللہ کے لیے دوستی کریں، جمع ہوں تو اس کے لیے اور جدا ہوں تو اس کے لیے، وہ شخص جسے کوئی خوبرواور حسب ونسب والی عورت برائی کو دعوت دے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جو اس قدر پوشیدہ طورپر صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ ہوکہ دایاں ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے، ساتواں وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انسان کو صدقہ وغیرہ دینے کا خود اہتمام کرنا چاہیے اور دیتے وقت اپنے دائیں ہاتھ سے دے اور اس قدر راز داری کے ساتھ ادا کرے کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔ یہ انداز پوشیدہ طور پر دینے میں انتہائی مبالغے پر مبنی ہے، بلکہ اس سے انتہائی خلوص اور للہیت مراد ہے۔ (2) واضح رہے کہ حدیث میں مذکور اعزاز صرف سات قسم کے لوگوں کے لیے خاص نہیں، بلکہ رحمت الٰہی کا یہ عالم ہے کہ دیگر احادیث میں اس قسم کے لوگوں کی تعداد تقریبا ستر تک پہنچتی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مختلف احوال و ظروف کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان فرمائی ہے۔ ان میں مرد یا عورت کے متعلق بھی حصر نہیں۔ بعض محدثین نے اس موضوع پر مستقل رسالے بھی لکھے ہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے بیان کیا عبیداللہ عمری سے‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمن نے حفص بن عاصم سے بیان کیا‘ ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا وار کوئی سایہ نہ ہوگا۔ انصاف کرنے والا حاکم‘ وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو‘ وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگارہے‘ دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں‘ اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے‘ ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا، لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘ وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔
حدیث حاشیہ:
قیامت کے دن عرش عظیم کا سایہ پانے والے یہ سات خوش قسمت انسان مرد ہوں یا عورت ان پر حصر نہیں ہے۔ بعض احادیث میں اور بھی ایسے نیک اعمال کا ذکر آیا ہے جن کی وجہ سے سایہ عرش عظیم مل سکے گا۔ بعض علماء نے اس موضوع پر مستقل رسالے تحریر فرمائے ہیں اور ان جملہ اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کے نیچے سایہ ملنے کا ذریعہ بن سکیں گے۔ بعض نے اس فہرست کو چالیس تک بھی پہنچادیا ہے۔ یہاں باب اور حدیث میں مطابقت اس متصدق سے ہے جو راہ للہ اس قدر پوشیدہ خرچ کرتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے خرچ کرتا ہے اور بائیں کو بھی خبر نہیں ہوپاتی۔ اس سے غایت خلوص مراد ہے۔ انصاف کرنے والا حاکم چودھری‘ پنچ‘ اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا جو ان اور مسجد سے دل لگانے والا نمازی اور دو باہمی الٰہی محبت رکھنے والے مسلمان اور صاحب عصمت وعفت مرد یا عورت مسلمان اور اللہ کے خوف سے آنسو بہانے والی آنکھیں یہ جملہ اعمال حسنہ ایسے ہیں کہ ان پر کاربند ہونے والوں کو عرش الٰہی کا سایہ ملنا ہی چاہیے۔ اس حدیث سے اللہ کے عرش اور اس کے سایہ کا بھی اثبات ہوا جو بلا کیف وکم وتاویل تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک کی بہت سی آیات میں عرش عظیم کا ذکر آیا ہے۔ بلا شک وشبہ اللہ پاک صاحب عرش عظیم ہے۔ اس کے لیے عرش کا استواءاور جہت فوق ثابت اور برحق ہے جس کی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے ہم مکلف ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Seven people will be shaded by Allah under His shade on the day when there will be no shade except His. They are: (1) a just ruler; (2) a young man who has been brought up in the worship of Allah, (i.e. worship Allah (Alone) sincerely from his childhood), (3) a man whose heart is attached to the mosque (who offers the five compulsory congregational prayers in the mosque); (4) two persons who love each other only for Allah's sake and they meet and part in Allah's cause only; (5) a man who refuses the call of a charming woman of noble birth for an illegal sexual intercourse with her and says: I am afraid of Allah; (6) a person who practices charity so secretly that his left hand does not know what his right hand has given (i.e. nobody knows how much he has given in charity). (7) a person who remembers Allah in seclusion and his eyes get flooded with tears." ________