باب: اس کے بارے میں کہ جس نے اپنے خدمت گار کو صدقہ دینے کا حکم دیا اور خود اپنے ہاتھ سے نہیں دیا۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Whoever ordered his servant to give something in charity and did not give it himself)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوموسیٰ ؓ نے نبی کریم ﷺسے یوں بیان کیا کہ خادم بھی صدقہ دینے والوں میں سمجھا جائے گا۔
1425.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جب کوئی عورت اپنے گھر کی اشیائے خور و نوش سے خیرات کرے اور اس کی نیت گھر کواجاڑنے کی نہ ہوتو اس کو خیرات کرنے کا ثواب ہوگا، اسکے شوہر کو کمائی کرنے کااجر ملے گا اورخزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہوگا۔‘‘
تشریح:
(1) اشیائے خورد و نوش سے ایسی چیزیں مراد ہیں جو دیر تک رکھنے سے خراب ہونے کا اندیشہ ہو یا ان کے علاوہ ایسی خیرات جو خاوند کو ناگوار نہ گزرے اور نہ اسے زیادہ نقصان ہی پہنچنے کا خطرہ ہو، کیونکہ حدیث میں غیر مفسدہ کی شرط ہے، یعنی اصلاح کی نیت ہو، گھر کو بے آباد کرنا اور اجاڑنا مقصود نہ ہو، نیز گھر کی اصلاح بیوی اور میاں کے باہمی تعاون ہی سے ہو سکتی ہے۔ خازن کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ مال اسی کے قبضے میں ہوتا ہے۔ افساد اور اسراف سے دونوں کو اجتناب کرنا چاہیے۔ (2) حدیث میں خادم کا لفظ نہیں ہے اور عنوان میں خدمت گزار کا ذکر ہے۔ اس کی تطبیق یوں ہے کہ امام بخاری ؒ نے خازن اور بیوی پر خدمت گزار کو قیاس کیا ہے، کیونکہ خدمت گزاری ان سب میں علت مشترکہ ہے۔ الغرض مالک مال، خزانچی اس کی حفاظت اور بیوی صحیح مصرف میں خرچ کرنے اور صدقہ و خیرات نکالنے کی وجہ سے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح خرچ کرنے کی ترغیب اور امانت و دیانت کی تعلیم و تلقین بھی ہے۔ (3) ابن رشید نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے تنبیہ کی ہے کہ خازن، خادم اور بیوی، حقیقی مالک کے امین ہیں۔ انہیں مالک کی اجازت ہی سے اس کے مال میں تصرف کرنا چاہیے، وہ اجازت عرفا ہو یا اجمالا یا تفصیلا۔ (فتح الباري:371/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1388
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1425
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1425
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1425
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ صاحب مال کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اپنا صدقہ خود تقسیم کرے بلکہ وہ کسی دوسرے کو بھی اس کام پر مامور کر سکتا ہے اگرچہ بہتر ہے کہ وہ خود اس کا اہتمام کرے۔ (فتح الباری:3/371) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اس معلق روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1438)
اور ابوموسیٰ ؓ نے نبی کریم ﷺسے یوں بیان کیا کہ خادم بھی صدقہ دینے والوں میں سمجھا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جب کوئی عورت اپنے گھر کی اشیائے خور و نوش سے خیرات کرے اور اس کی نیت گھر کواجاڑنے کی نہ ہوتو اس کو خیرات کرنے کا ثواب ہوگا، اسکے شوہر کو کمائی کرنے کااجر ملے گا اورخزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اشیائے خورد و نوش سے ایسی چیزیں مراد ہیں جو دیر تک رکھنے سے خراب ہونے کا اندیشہ ہو یا ان کے علاوہ ایسی خیرات جو خاوند کو ناگوار نہ گزرے اور نہ اسے زیادہ نقصان ہی پہنچنے کا خطرہ ہو، کیونکہ حدیث میں غیر مفسدہ کی شرط ہے، یعنی اصلاح کی نیت ہو، گھر کو بے آباد کرنا اور اجاڑنا مقصود نہ ہو، نیز گھر کی اصلاح بیوی اور میاں کے باہمی تعاون ہی سے ہو سکتی ہے۔ خازن کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ مال اسی کے قبضے میں ہوتا ہے۔ افساد اور اسراف سے دونوں کو اجتناب کرنا چاہیے۔ (2) حدیث میں خادم کا لفظ نہیں ہے اور عنوان میں خدمت گزار کا ذکر ہے۔ اس کی تطبیق یوں ہے کہ امام بخاری ؒ نے خازن اور بیوی پر خدمت گزار کو قیاس کیا ہے، کیونکہ خدمت گزاری ان سب میں علت مشترکہ ہے۔ الغرض مالک مال، خزانچی اس کی حفاظت اور بیوی صحیح مصرف میں خرچ کرنے اور صدقہ و خیرات نکالنے کی وجہ سے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح خرچ کرنے کی ترغیب اور امانت و دیانت کی تعلیم و تلقین بھی ہے۔ (3) ابن رشید نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے تنبیہ کی ہے کہ خازن، خادم اور بیوی، حقیقی مالک کے امین ہیں۔ انہیں مالک کی اجازت ہی سے اس کے مال میں تصرف کرنا چاہیے، وہ اجازت عرفا ہو یا اجمالا یا تفصیلا۔ (فتح الباري:371/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو موسیٰؑ نے نبی کریم ﷺسے بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے؛ "وہ(خازن بھی) صدقہ دینے والوں میں سمجھا جائےگا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ان سے منصور نے۔ ان سے شقیق نے ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے کچھ خرچ کرے اور اس کی نیت شوہر کی پونجی برباد کرنے کی نہ ہوتو اسے خرچ کرنے کا ثواب ملے گا اور شوہر کو بھی اس کا ثواب ملے گا۔ اس نے کمایا ہے اور خزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرتا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب ظاہر ہے کہ مالک کے مال کی حفاظت کرنے والے اور اس کے حکم کے مطابق اسی میں سے صدقہ خیرات نکالنے والے ملازم، خادم، خزانچی سب ہی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ثواب کے مستحق ہوں گے۔ حتیٰ کہ بیوی بھی جو شوہر کی اجازت سے اس کے مال سے صدقہ خیرات کرے، وہ بھی ثواب کی مستحق ہوگی۔ اس میں ایک طرح سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور دیانت وامانت کی تعلیم وتلقین ہے۔ آیت شریفہ: لَن تَنَالُوا البِرَّ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aishah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "When a woman gives in charity some of the foodstuff (which she has in her house) without spoiling it, she will receive the reward for what she has spent, and her husband will receive the reward because of his earning, and the storekeeper will also have a reward similar to it. The reward of one will not decrease the reward of the others . " ________