مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1435.
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث یاد ہو؟ میں نے کہا:جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا مجھے اسی طرح یاد ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہاں! تمہاری جرءت اس بارے میں قابل داد ہے، بتاؤ!آپ نے کیسے فرمایا تھا؟میں نے کہا: آدمی کا فتنہ اپنے اہل وعیال ، اولاد اور ہمسائے کے متعلق ہوتا ہے، نماز، صدقہ اور بھلی بات، نیز اچھا کام اس کے لیے کفارہ ہے۔ راوی حدیث سلیمان نے کہا: وہ یوں فرمایا کرتے تھے کہ نماز، صدقہ، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنایہ سب اس کا کفارہ بن جائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اسکے متعلق نہیں، بلکہ میں تو اس فتنے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جوسمندروں کی لہروں کی طرح موجز ہوگا۔ میں نے کہا:اے امیرالمومنین !آپ اس کے متعلق کوئی فکر نہ کریں، کیونکہ آپ کے اور اسکے درمیان ایک بند شده دروازہ ہے، آپ نے فرمایا:وہ دروازہ توڑا جائے گا یاکھولا جائے گا؟میں نےعرض کیا:نہیں!بلکہ وہ دروازہ توڑا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: جب وہ توڑا گیا تو پھر کبھی بند نہیں ہوگا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: ہاں! معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ ہم دروازے کے متعلق سوال کرنے سے ڈر ے، اس لیے ہم نے مسروق سے کہا کہ تم حضرت حذیفہ ؓ سے اس دروازے کے متعلق دریافت کرو، چنانچہ حضرت مسروق نے حضرت حذیفہ سے پوچھا توانھوں نے فرمایا: وہ دروازہ خود عمر فاروق ؓ ہیں، ہم نے عرض کیا: کیا عمر فاروق جانتے تھے کہ آپ کی مراد کیاہے؟ انھوں نے فرمایا:ہاں جیسےآنے والے کل سے پہلے رات کاہونا یقینی ہے، یہ اس لیے کہ میں نے حضرت فاروق ؓ کو ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو پہیلی یا چیستان نہیں ہے۔
تشریح:
(1) حضرت حذیفہ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں عام طور پر رسول اللہ ﷺ سے فتنوں کے متعلق ہی سوال کیا کرتا تھا تاکہ ان سے بچنے کے متعلق کوئی تدبیر کروں۔ (2) دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر ؓ کا شہید ہونا تھا جسے حضرت عمر فاروق ؓ بھی خوب جانتے تھے۔ واقعی آپ کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا بازار گرم ہوا جو قیامت تک ٹھنڈا ہونے والا نہیں۔ آپ کا وجود مسعود واقعی ان فتنوں کے سامنے سدِ سکندری کی حیثیت رکھتا تھا۔ (3) حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صدقہ و خیرات سے گناہ مٹ جاتے ہیں اور آدمی اندرونی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد ہم آئندہ حدیث: 3586 کے تحت ذکر کریں گے۔ إن شاءاللہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1398
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1435
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1435
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1435
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث یاد ہو؟ میں نے کہا:جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا مجھے اسی طرح یاد ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہاں! تمہاری جرءت اس بارے میں قابل داد ہے، بتاؤ!آپ نے کیسے فرمایا تھا؟میں نے کہا: آدمی کا فتنہ اپنے اہل وعیال ، اولاد اور ہمسائے کے متعلق ہوتا ہے، نماز، صدقہ اور بھلی بات، نیز اچھا کام اس کے لیے کفارہ ہے۔ راوی حدیث سلیمان نے کہا: وہ یوں فرمایا کرتے تھے کہ نماز، صدقہ، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنایہ سب اس کا کفارہ بن جائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اسکے متعلق نہیں، بلکہ میں تو اس فتنے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جوسمندروں کی لہروں کی طرح موجز ہوگا۔ میں نے کہا:اے امیرالمومنین !آپ اس کے متعلق کوئی فکر نہ کریں، کیونکہ آپ کے اور اسکے درمیان ایک بند شده دروازہ ہے، آپ نے فرمایا:وہ دروازہ توڑا جائے گا یاکھولا جائے گا؟میں نےعرض کیا:نہیں!بلکہ وہ دروازہ توڑا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: جب وہ توڑا گیا تو پھر کبھی بند نہیں ہوگا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: ہاں! معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ ہم دروازے کے متعلق سوال کرنے سے ڈر ے، اس لیے ہم نے مسروق سے کہا کہ تم حضرت حذیفہ ؓ سے اس دروازے کے متعلق دریافت کرو، چنانچہ حضرت مسروق نے حضرت حذیفہ سے پوچھا توانھوں نے فرمایا: وہ دروازہ خود عمر فاروق ؓ ہیں، ہم نے عرض کیا: کیا عمر فاروق جانتے تھے کہ آپ کی مراد کیاہے؟ انھوں نے فرمایا:ہاں جیسےآنے والے کل سے پہلے رات کاہونا یقینی ہے، یہ اس لیے کہ میں نے حضرت فاروق ؓ کو ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو پہیلی یا چیستان نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت حذیفہ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں عام طور پر رسول اللہ ﷺ سے فتنوں کے متعلق ہی سوال کیا کرتا تھا تاکہ ان سے بچنے کے متعلق کوئی تدبیر کروں۔ (2) دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر ؓ کا شہید ہونا تھا جسے حضرت عمر فاروق ؓ بھی خوب جانتے تھے۔ واقعی آپ کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا بازار گرم ہوا جو قیامت تک ٹھنڈا ہونے والا نہیں۔ آپ کا وجود مسعود واقعی ان فتنوں کے سامنے سدِ سکندری کی حیثیت رکھتا تھا۔ (3) حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صدقہ و خیرات سے گناہ مٹ جاتے ہیں اور آدمی اندرونی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد ہم آئندہ حدیث: 3586 کے تحت ذکر کریں گے۔ إن شاءاللہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا‘ ان سے ابووائل نے‘ انہوں نے حذیفہ بن یمان ؓ سے کہ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث آپ لوگوں میں کس کو یاد ہے؟ حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں اس طرح یاد رکھتا ہوں جس طرح نبی اکرم ﷺ نے اس کو بیان فرمایا تھا۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بیان پر جرات ہے۔ اچھا تو آنحضور ﷺ نے فتنوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ میں نے کہا کہ ( آپ نے فرمایا تھا ) انسان کی آزمائش ( فتنہ ) اس کے خاندان‘ اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے اور نماز‘ صدقہ اور اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے منع کرنا اس فتنے کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اعمش نے کہا ابو وائل کبھی یوں کہتے تھے۔ نماز اور صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا بری بات سے روکنا‘ یہ اس فتنے کو مٹا دینے والے نیک کام ہیں۔ پھر اس فتنے کے متعلق عمر ؓ نے فرمایا کہ میری مراد اس فتنہ سے نہیں۔ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا پھیلے گا۔ حذیفہ ؓ نے بیان کیا‘ میں نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ اس فتنے کی فکر نہ کیجئے آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ عمر ؓ نے پوچھا کہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا صرف کھولا جائے گا۔ انہوں نے بتلایا نہیں بلکہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا کہ جب دروازہ توڑ دیا جائے گا تو پھر کبھی بھی بند نہ ہوسکے گا ابووائل نے کہا کہ ہاں پھر ہم رعب کی وجہ سے حذیفہ ؓ سے یہ نہ پوچھ سکے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا کہ تم پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ مسروق ؒ نے پوچھا تو حذیفہ ؓ نے فرمایا کہ دروازہ سے مراد خود حضرت عمرؓ ہی تھے۔ ہم نے پھر پوچھا تو کیا عمر ؓ جانتے تھے کہ آپ کی مراد کون تھی؟ انہوں نے کہا ہاں جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو جانتے ہیں اور یہ اس لیے کہ میں نے جو حدیث بیان کی وہ غلط نہیں تھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ نے حضرت حذیفہ ؓ کے بیان کی تعریف کی، کیونکہ وہ اکثر آنحضرت ﷺ سے فتنوں اور فسادوں کے بارے میں جو آپ کے بعد ہونے والے تھے‘ پوچھتے رہا کرتے تھے۔ جب کہ دوسرے لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا کہ بے شک تو دل کھول کر ان کو بیان کرے گا، کیونکہ تو ان کو خوب جانتا ہے۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری یہاں یہ ثابت کرنے کے لیے لائے کہ صدقہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA): Hudhaifa said, "'Umar said, 'Who amongst you remembers the statement of Allah's Apostle (ﷺ) about afflictions'?' I said, 'I know it as the Prophet (ﷺ) had said it.' 'Umar said, 'No doubt, you are bold. How did he say it?' I said, 'A man's afflictions (wrong deeds) concerning his wife, children and neighbors are expiated by (his) prayers, charity, and enjoining good.' (The sub-narrator Sulaiman added that he said, 'The prayer, charity, enjoining good and forbidding evil.') 'Umar said, 'I did not mean that, but I ask about that affliction which will spread like the waves of the sea.' I said, 'O chief of the believers! You need not be afraid of it as there is a closed door between you and it.' He asked, 'Will the door be broken or opened?' I replied, 'No, it will be broken.' He said, 'Then, if it is broken, it will never be closed again?' I replied, 'Yes.' " Then we were afraid to ask what that door was, so we asked Masruq to inquire, and he asked Hudhaifa regarding it. Hudhaifa said, "The door was 'Umar. "We further asked Hudhaifa whether 'Umar knew what that door meant. Hudhaifa replied in the affirmative and added, "He knew it as one knows that there will be a night before the tomorrow morning." ________