باب:اس بارے میں کہ جس نے شرک کی حالت میں صدقہ دیا اور پھر اسلام لے آیا
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Whoever gave things in charity while he was a Mushrik and then embraced Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1436.
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نےعرض کیا:اللہ کےرسول ﷺ !میں زمانہ جاہلیت میں عبادت کی نیت سے جو صدقہ دیتا تھا یاغلام آزاد کرتا اور صلہ رحمی کرتاتھا کیا ان کا مجھے کوئی اجر ملے گا؟نبی کریم ﷺ نےفرمایا:’’تم ان نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو۔‘‘
تشریح:
(1) حدیث کے آخری حصے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ تم گزشتہ نیکیوں پر پابند رہنے کی بنا پر تو مسلمان ہوئے ہو، یعنی تمہیں ان کا ثواب ملے گا۔ اس کے متعلق کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے اپنے ظاہری مفہوم ہی پر محمول کرنا چاہیے، یعنی کافر کو اسلام لانے کے بعد دوران کفر میں کی گئی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اسلام لایا پھر اس نے اچھی طرح اسلام کے تقاضوں کو پورا کیا تو اسے زمانہ کفر کی طاعات و حسنات کا بھی اجر ملے گا اور اس کی دوران کفر میں کی ہوئی تمام غلطیوں کو بھی مٹا دیا جائے گا۔ (سنن النسائي، الإیمان، حدیث:5001) جبکہ صحیح بخاری میں صرف کفارہ سیئات کا ذکر ہے اور نیکیوں کو جمع کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:41) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس جملے کو دانستہ حذف کر دیا ہے، کیونکہ دوران کفر میں کی ہوئی نیکیوں کو ثواب ملنا عام قواعد کے خلاف ہے، لیکن ابن بطال نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر جو چاہے اور جس طرح چاہے اپنا فضل و کرم کرے ہمیں اس پر اعتراض کی اجازت نہیں۔ (فتح الباري:134/1) (2) ہمارے نزدیک ابن بطال نے بجا فرمایا ہے اور بلاوجہ امام بخاری ؒ کے متعلق ایسا کہنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حسنات کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایسی حسنات جن کا براہ راست عبادات سے تعلق نہیں بلکہ وہ مکارم اخلاق اور انسانی ہمدردی سے متعلق ہیں، مثلا: حلم و بردباری، غلام آزاد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔ حسنات کی یہ اقسام کافر کے لیے آخرت میں نافع ہوں گی۔ صلہ رحمی کے متعلق تو حدیث میں صراحت ہے کہ کافر کو بھی اس کے عوض دنیا میں عزت اور رزق میں کشادگی حاصل ہوتی ہے، لیکن اس قسم کی حسنات اخروی عذاب سے نجات کا باعث نہیں ہوں گی، کیونکہ اس کے لیے ایمان شرط ہے، خواہ دھندلا سا ہی کیوں نہ ہو، البتہ ان کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ضرور ہو گی، مثلا: نبی ﷺ کے چچا ابو طالب کا سارا بدن عذاب سے محفوظ ہو گا، صرف آگ کے جوتے ان کو پہنائے جائیں گے جن کی گرمی سے ان کا دماغ کھولتا رہے گا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3885) ٭ ایسی حسنات جن کا تعلق براہِ راست عبادات سے ہے، مثلا: نماز پڑھنا یا حج کرنا، ان کا دنیا یا آخرت میں کوئی اعتبار نہ ہو گا، ہاں! اگر مسلمان ہو جائے تو انہیں شمار کر لیا جائے گا۔ اگر مسلمان نہ ہوا اور حالت کفر پر موت آئی تو ایسی عبادات کو هباء منثورا کر دیا جائے گا، کیونکہ عبادات میں نیت ضروری ہے اور ایمان کے بغیر نیت معتبر نہیں ہو گی۔ دوسری قسم کی طاعات میں نیت شرط نہیں ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ کی حدیث میں بھی صرف عتق و صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ کا ذکر ہے، عبادات کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ کافر انسان کو دنیا میں اس کے اچھے کاموں کا صلہ کشادگی رزق کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:381/3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ کافر یا مشرک جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کی سابقہ نیکیاں بھی محفوظ رہتی ہیں اور اسے زمانہ کفر کی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، یہ محض اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے متعدد توجیہات ذکر کی ہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے کہ کافر جب مسلمان ہو جائے تو اس کی سابقہ نیکیوں کو بھی اس کے نامہ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا بشرطیکہ وہ اسلام پر کاربند رہتے ہوئے فوت ہوا ہو۔ (فتح الباري:381/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1399
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1436
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1436
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1436
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نےعرض کیا:اللہ کےرسول ﷺ !میں زمانہ جاہلیت میں عبادت کی نیت سے جو صدقہ دیتا تھا یاغلام آزاد کرتا اور صلہ رحمی کرتاتھا کیا ان کا مجھے کوئی اجر ملے گا؟نبی کریم ﷺ نےفرمایا:’’تم ان نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث کے آخری حصے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ تم گزشتہ نیکیوں پر پابند رہنے کی بنا پر تو مسلمان ہوئے ہو، یعنی تمہیں ان کا ثواب ملے گا۔ اس کے متعلق کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے اپنے ظاہری مفہوم ہی پر محمول کرنا چاہیے، یعنی کافر کو اسلام لانے کے بعد دوران کفر میں کی گئی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اسلام لایا پھر اس نے اچھی طرح اسلام کے تقاضوں کو پورا کیا تو اسے زمانہ کفر کی طاعات و حسنات کا بھی اجر ملے گا اور اس کی دوران کفر میں کی ہوئی تمام غلطیوں کو بھی مٹا دیا جائے گا۔ (سنن النسائي، الإیمان، حدیث:5001) جبکہ صحیح بخاری میں صرف کفارہ سیئات کا ذکر ہے اور نیکیوں کو جمع کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:41) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس جملے کو دانستہ حذف کر دیا ہے، کیونکہ دوران کفر میں کی ہوئی نیکیوں کو ثواب ملنا عام قواعد کے خلاف ہے، لیکن ابن بطال نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر جو چاہے اور جس طرح چاہے اپنا فضل و کرم کرے ہمیں اس پر اعتراض کی اجازت نہیں۔ (فتح الباري:134/1) (2) ہمارے نزدیک ابن بطال نے بجا فرمایا ہے اور بلاوجہ امام بخاری ؒ کے متعلق ایسا کہنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حسنات کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایسی حسنات جن کا براہ راست عبادات سے تعلق نہیں بلکہ وہ مکارم اخلاق اور انسانی ہمدردی سے متعلق ہیں، مثلا: حلم و بردباری، غلام آزاد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔ حسنات کی یہ اقسام کافر کے لیے آخرت میں نافع ہوں گی۔ صلہ رحمی کے متعلق تو حدیث میں صراحت ہے کہ کافر کو بھی اس کے عوض دنیا میں عزت اور رزق میں کشادگی حاصل ہوتی ہے، لیکن اس قسم کی حسنات اخروی عذاب سے نجات کا باعث نہیں ہوں گی، کیونکہ اس کے لیے ایمان شرط ہے، خواہ دھندلا سا ہی کیوں نہ ہو، البتہ ان کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ضرور ہو گی، مثلا: نبی ﷺ کے چچا ابو طالب کا سارا بدن عذاب سے محفوظ ہو گا، صرف آگ کے جوتے ان کو پہنائے جائیں گے جن کی گرمی سے ان کا دماغ کھولتا رہے گا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3885) ٭ ایسی حسنات جن کا تعلق براہِ راست عبادات سے ہے، مثلا: نماز پڑھنا یا حج کرنا، ان کا دنیا یا آخرت میں کوئی اعتبار نہ ہو گا، ہاں! اگر مسلمان ہو جائے تو انہیں شمار کر لیا جائے گا۔ اگر مسلمان نہ ہوا اور حالت کفر پر موت آئی تو ایسی عبادات کو هباء منثورا کر دیا جائے گا، کیونکہ عبادات میں نیت ضروری ہے اور ایمان کے بغیر نیت معتبر نہیں ہو گی۔ دوسری قسم کی طاعات میں نیت شرط نہیں ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ کی حدیث میں بھی صرف عتق و صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ کا ذکر ہے، عبادات کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ کافر انسان کو دنیا میں اس کے اچھے کاموں کا صلہ کشادگی رزق کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:381/3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ کافر یا مشرک جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کی سابقہ نیکیاں بھی محفوظ رہتی ہیں اور اسے زمانہ کفر کی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، یہ محض اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے متعدد توجیہات ذکر کی ہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے کہ کافر جب مسلمان ہو جائے تو اس کی سابقہ نیکیوں کو بھی اس کے نامہ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا بشرطیکہ وہ اسلام پر کاربند رہتے ہوئے فوت ہوا ہو۔ (فتح الباري:381/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ‘ انہیں عروہ نے اور ان سے حکیم بن حزام ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان نیک کاموں سے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صدقہ‘ غلام آزاد کرنے اور صلہ رحمی کی صورت میں کیا کرتا تھا۔ کیا ان کا مجھے ثواب ملے گا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی ان تمام نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے گزر چکی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو کفر کے زمانہ کی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا۔ یہ اللہ پاک کی عنایت ہے۔ اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے۔ بادشاہ حقیقی کے پیغمبر نے جو کچھ فرمادیا وہی قانون ہے۔ اس سے زیادہ صراحت دار قطنی کی روایت میں ہے کہ جب کافر اسلام لاتا ہے اور اچھی طرح مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کی ہر نیکی جو اس نے اسلام سے پہلے کی تھی‘ لکھ لی جاتی ہے اور ہر برائی جو اسلام سے پہلے کی تھی مٹادی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ملتا رہتا ہے اور ہر برائی کے بدلے ایک برائی لکھی جاتی ہے۔ بلکہ ممکن ہے اللہ پاک اسے بھی معاف کردے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hakim bin Hizam (RA): I said to Allah's Apostle, "Before embracing Islam I used to do good deeds like giving in charity, slave-manumitting, and the keeping of good relations with kith and kin. Shall I be rewarded for those deeds?" The Prophet (ﷺ) replied, "You became Muslim with all those good deeds (Without losing their reward)." ________