Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The Zakat of silver)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1447.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’پانچ اونٹوں سے کم زکوٰۃ نہیں، پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ نہیں، اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘ یحییٰ بن سعید کی روایت میں عمرو نے اپنے والد محترم یحییٰ مازنی سے سماع کی تصریح کی ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے چاندی کا نصاب بیان کیا ہے جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ ہے جو دو صد درہم کے برابر ہے۔ اس کا وزن تقریبا ساڑھے باون تولے ہے۔ اعشاری نظام کے مطابق ساڑھے باون تولے 612 کے برابر ہیں۔ جب ان پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کیا جائے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تیرے پاس دو صد درہم ہوں اور ان پر پورا سال گزر جائے تو ان میں پانچ درہم زکاۃ ہے۔ اور جب تیرے پاس بیس دینار سونا ہو اور اس پر سال گزر جائے تو ان میں نصف دینار زکاۃ ہے اور جو اس سے زیادہ (سونا یا چاندی) ہو گا تو اسی حساب سے زکاۃ ہو گی۔‘‘(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1573) (2) بیس دینار سونا کم و بیش ساڑھے سات تولے کے برابر ہے۔ موجودہ اعشاری نظام کے مطابق اس میں تقریبا 87 گرام ہوتے ہیں۔ عصر حاضر میں چونکہ سونا یا چاندی بطور کرنسی یا قیمت استعمال نہیں ہوتا، اس لیے ہماری موجودہ کرنسی سونے یا چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے چالیسواں حصہ بطور زکاۃ نکالا جائے۔ بہتر ہے کہ غرباء اور مساکین کے فائدے کے پیش نظر چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے، یعنی اگر کسی کے پاس اس قدر مالیت کی کرنسی پڑی ہے جس سے 87 گرام سونا یا 612 گرام چاندی خریدی جا سکے اور اس پر سال گزر جائے تو اس کرنسی سے چالیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں 2.5 یعنی اڑھائی فی صد کے اعتبار سے زکاۃ ادا کی جائے۔ سونے اور چاندی کو ملا کر نصاب مکمل کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1410
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1447
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1447
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1447
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’پانچ اونٹوں سے کم زکوٰۃ نہیں، پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ نہیں، اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘ یحییٰ بن سعید کی روایت میں عمرو نے اپنے والد محترم یحییٰ مازنی سے سماع کی تصریح کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے چاندی کا نصاب بیان کیا ہے جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ ہے جو دو صد درہم کے برابر ہے۔ اس کا وزن تقریبا ساڑھے باون تولے ہے۔ اعشاری نظام کے مطابق ساڑھے باون تولے 612 کے برابر ہیں۔ جب ان پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کیا جائے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تیرے پاس دو صد درہم ہوں اور ان پر پورا سال گزر جائے تو ان میں پانچ درہم زکاۃ ہے۔ اور جب تیرے پاس بیس دینار سونا ہو اور اس پر سال گزر جائے تو ان میں نصف دینار زکاۃ ہے اور جو اس سے زیادہ (سونا یا چاندی) ہو گا تو اسی حساب سے زکاۃ ہو گی۔‘‘(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1573) (2) بیس دینار سونا کم و بیش ساڑھے سات تولے کے برابر ہے۔ موجودہ اعشاری نظام کے مطابق اس میں تقریبا 87 گرام ہوتے ہیں۔ عصر حاضر میں چونکہ سونا یا چاندی بطور کرنسی یا قیمت استعمال نہیں ہوتا، اس لیے ہماری موجودہ کرنسی سونے یا چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے چالیسواں حصہ بطور زکاۃ نکالا جائے۔ بہتر ہے کہ غرباء اور مساکین کے فائدے کے پیش نظر چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے، یعنی اگر کسی کے پاس اس قدر مالیت کی کرنسی پڑی ہے جس سے 87 گرام سونا یا 612 گرام چاندی خریدی جا سکے اور اس پر سال گزر جائے تو اس کرنسی سے چالیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں 2.5 یعنی اڑھائی فی صد کے اعتبار سے زکاۃ ادا کی جائے۔ سونے اور چاندی کو ملا کر نصاب مکمل کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عمرو بن یحیٰی مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ یحیٰی نے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم ( چاندی ) میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ وسق سے کم ( غلہ ) میں زکوٰۃ نہیں۔ ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن یحیٰی نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوسعید خدری ؓ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث کوسنا۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث ابھی اوپر باب ما أدي زکوته فلیس بکنز میں گزرچکی ہے اور وسق اور اوقیہ کی مقدار بھی وہیں مذکور ہوچکی ہے۔ پانچ اوقیہ دو سودرہم کے ہوتے ہیں۔ ہر درہم چھ دانق کا۔ ہر دانق 8 جو اور2/5 جو کا۔ تودرہم 50 جو اور 2/5 جو کا ہوا۔ بعضوں نے کہا کہ درہم چار ہزار اور دو سو رائی کے دانوں کا ہوتا ہے۔ اور دینار ایک درہم اور 3/7 درہم کا یا چھ ہزار رائی کے دانوں کا۔ ایک قیراط 3/8 دانق کا ہوتا ہے۔ مولانا قاضی ثناءاللہ پانی پتی مرحوم فرماتے ہیں کہ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کا وزن ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے اور چاندی کا نصاب دو سودرہم ہے جن کے سکہ رائج الوقت دہلی سے 56 روپے کا بنتے ہیں۔ وقال شيخ مشائخنا العلامة الشيخ عبد الله الغازيفوري في رسالته ما معربه نصاب الفضة مائتا درهم أي خمسون واثنتان تولجة ونصف تولجة، وهي تساوي ستين روبية من الروبية الإنكليزية (النافقة في الهند في زمن الإنكليز) التي تكون بقدر عشر ماهجة ونصف ماهجة. وقال الشيخ بحر العلوم اللكنوى الحنفي: في رسائل الأركان الأربعة (ص178) وزن مائتي درهم وزن خمس وخمسين روبية، وكل روبية أحد عشر ما شج(مرعاة جلد 3ص 41)ہمارے شیخ المشائخ علامہ حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصاب دو سودرہم ہیں یعنی ساڑھے باون تولہ اور یہ انگریزی دور کے مروجہ چاندی کے روپے سے ساٹھ روپوں کے برابر ہوتی ہے۔ جوروپیہ تقریباً ساڑھے گیارہ ماشہ کا مروج تھا۔ مولانا بحر العلوم لکھنؤی فرماتے ہیں کہ دو سودرہم وزن چاندی 55 روپے کے برابر ہے اور ہر روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانہ میں چاندی کا نصاب اوزان ہندیہ کی مناسبت سے ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلہ میں پانچ وسق سے کم پر عشر نہیں ہے اور پانچ وسق اکیس من ساڑھے سینتیس سیروزن 80 تولہ کے سیر کے حساب سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور صاع 234 تولے ( 6 تولہ کم 3 سیر ) کا ہوتا ہے۔ پس ایک وسق چار من ساڑھے پندرہ سیر کا ہوا۔ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri : Allah's Apostle (ﷺ) said, "There is no Zakat on less than five camels and also there is no Zakat on less than five Awaq (of silver). (5 Awaq = 22 Fransa Riyals of Yamen or 20O Dirhams.) And there is no Zakat on less than five Awsuq. (A special measure of food-grains, and one Wasq equals 6O Sa's.) (For gold 20, Dinars i.e. equal to 12 Guinea English. No Zakat for less than 12 Guinea (English) of gold or for silver less than 22 Fransa Riyals of Yamen.) ________