Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: There is no Zakat for less than five camels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1459.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’پانچ وسق سے کم کھجور پر زکاۃ نہیں اور نہ چاندی ہی کے پانچ اوقیوں سے کم میں زکاۃ ہے، نیز پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔
تشریح:
اس عنوان کا تعلق اونٹوں کی زکاۃ سے ہے، اس سے قبل وجوب زکاۃ کو بیان کیا تھا، اب ان کی ایک خاص مقدار سے زکاۃ کی نفی بیان کی گئی ہے، لیکن حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ اس توجیہ میں تکلف ہے بلکہ اس عنوان کا اونٹوں اور بکریوں دونوں سے تعلق ہے۔ چونکہ بکریوں کی زکاۃ کا مسئلہ بیان کیا جا رہا تھا اور پانچ اونٹوں میں ایک بکری بطور زکاۃ وصول کی جاتی ہے، اس مناسبت سے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:407/3)واللہ أعلم۔ حدیث کے متعلقہ دیگر فوائد پہلے حدیث: 1447 کے تحت بیان ہو چکے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1421
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1459
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1459
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1459
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’پانچ وسق سے کم کھجور پر زکاۃ نہیں اور نہ چاندی ہی کے پانچ اوقیوں سے کم میں زکاۃ ہے، نیز پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس عنوان کا تعلق اونٹوں کی زکاۃ سے ہے، اس سے قبل وجوب زکاۃ کو بیان کیا تھا، اب ان کی ایک خاص مقدار سے زکاۃ کی نفی بیان کی گئی ہے، لیکن حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ اس توجیہ میں تکلف ہے بلکہ اس عنوان کا اونٹوں اور بکریوں دونوں سے تعلق ہے۔ چونکہ بکریوں کی زکاۃ کا مسئلہ بیان کیا جا رہا تھا اور پانچ اونٹوں میں ایک بکری بطور زکاۃ وصول کی جاتی ہے، اس مناسبت سے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:407/3)واللہ أعلم۔ حدیث کے متعلقہ دیگر فوائد پہلے حدیث: 1447 کے تحت بیان ہو چکے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ نَحْوُ هَذَا الْحَدِيثِ وَفِيهِ وَالْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا وَأَخْرَجَهَا أَبُو دَاوُدَ أَيْضًا لَكِنْ قَالَ سِتُّونَ مَخْتُومًا وَالدَّارَقُطْنِيُّ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ أَيْضًا وَالْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا وَلَمْ يَقَعْ فِي الْحَدِيثِ بَيَانُ الْمَكِيلِ بِالْأَوْسُقِ لَكِنْ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوْسُقٍ مِنْ تَمْرٍ وَلَا حَبٍّ صَدَقَةٌ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ لَيْسَ فِي حَبٍّ وَلَا تَمْرٍ صَدَقَةٌ حَتَّى يَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ وَلَفَظُ دُونَ فِي الْمَوَاضِعِ الثَّلَاثَةِ بِمَعْنَى أَقَلَّ لَا أَنَّهُ نَفَى عَنْ غَيْرِ الْخَمْسِ الصَّدَقَةَ كَمَا زَعَمَ بَعْضُ مَنْ لَا يُعْتَدُّ بِقَوْلِهِ وَاسْتُدِلَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَلَى وُجُوبِ الزَّكَاةِ فِي الْأُمُورِ الثَّلَاثَةِ وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى أَنَّ الزُّرُوعَ لَا زَكَاةَ فِيهَا حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ تَجِبُ فِي قَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ الْعُشْرُ وَسَيَأْتِي الْبَحْثُ فِي ذَلِكَ فِي بَابٍ مُفْرَدٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَلَمْ يَتَعَرَّضِ الْحَدِيثُ لِلْقَدْرِ الزَّائِدِ عَلَى الْمَحْدُودِ وَقَدْ أَجْمَعُوا فِي الْأَوْسَاقِ عَلَى أَنَّهُ لَا وَقَصَ فِيهَا وَأَمَّا الْفِضَّةُ فَقَالَ الْجُمْهُورُ هُوَ كَذَلِكَ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَا شَيْءَ فِيمَا زَادَ عَلَى مِائَتَيْ دِرْهَمٍ حَتَّى يَبْلُغَ النِّصَابَ وَهُوَ أَرْبَعُونَ فَجَعَلَ لَهَا وَقَصًا كَالْمَاشِيَةِ وَاحْتَجَّ عَلَيْهِ الطَّبَرَانِيُّ بِالْقِيَاسِ عَلَى الثِّمَارِ وَالْحُبُوبِ وَالْجَامِعُ كَوْنُ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مُسْتَخْرَجَيْنِ مِنَ الْأَرْضِ بِكُلْفَةٍ وَمُؤْنَةٍ وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى ذَلِكَ فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ فَمَا زَادَ فَائِدَةٌ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اشْتِرَاطِ الْحَوْلِ فِي الْمَاشِيَةِ وَالنَّقْدِ دُونَ الْمُعَشَّرَاتِ وَاللَّهُ أعلم۔(فتح الباري)خلاصہ عبارت یہ کہ پانچ اوقیہ چاندی میں زکوٰۃ ہے۔ یہی لفظ باب کے مطابق ہے اور دوسری روایت پر اعتماد کرتے ہوئے لفظ حدیث میں جو ابہام تھا‘ اسے ترجمہ کے ذریعہ بیان کردیا۔ اور لفظ اواق اوقیہ کی جمع ہے جس کی مقدار متفقہ طورپر چالیس درہم ہے۔ درہم سے خالص چاندی کا سکہ مراد ہے جو مضروب ہویا غیر مضروب۔ لفظ اوسق وسق کی جمع ہے اور وہ متفقہ طورپر ساٹھ صاع پر بولا گیا ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ عشر کے لیے پانچ وسق کا ہونا ضروری ہے اور جانوروں کے لیے‘ نقدی کے لیے ایک سال کا گزر جانا بھی شرط ہے اس پر علماءکا اجماع ہے۔ اجناس جن سے عشر نکالا جاتا ہے ان کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں۔ قلت هذا الحدیث صریح في أن النصاب شرط لوجوب العشر أونصف العشر فلا تجب الزکوٰة في شيئ من الزروع والثمار حتی تبلغ خمسة أوسق وهذا مذهب أکثر أهل العلم والصاع أربعة أمداد والمدُّ رِطل وثُلُثُ رِطل، فالصاع خمسة أرطال وثلث رطل وذلك بالرطل الذي وزنه مائة درهم وثمانية وعشرون درهماً بالدراهم التي كل عشرة منها وزن سبعة مثاقيل۔(مرعاة) یعنی میں کہتا ہوں کہ حدیث ہذا صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہے کہ عشریا نصف عشر کے لیے نصاب شرط ہے پس کھیتی اور پھلوں میں کوئی زکوٰۃ فرض نہ ہوگی جب تک وہ پانچ وسق کو نہ پہنچ جائے اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا پس صاع کے پانچ اور ثلث رطل ہوئے اور یہ حساب اس رطل سے ہے جس کا وزن ایک سو اٹھائیس درہم کے برابر ہوں اور درہم سے مراد وہ جس کے لیے دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہو۔ بعض علمائے احناف ہند نے یہاں کی زمینوں سے عشر کو ساقط قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ جو یہاں کی اراضی کو خراجی قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں:إختلف أصحاب الفتوى من الحنفية في أراضي المسلمين في بلاد الهند في زمن الانكليز وتخبطوا في ذلك فقال بعضهم: لا عشر فيها لأنها أراضي دار الحرب، وقال بعضهم إن أراضي الهند ليست بعشرية ولا خراجة بل أراضي الحوز أي أراضي بيت المال وأرض المملكة. (أرجع لتعريفها إلى رد المختار (ج3:ص353-354) وقال بعضهم: إن الرجل الذي لا يعلم إن أرضه انتقلت إليه من أيدي الكفار والأرض الآن في ملكه فعليه فيها العشر وجعل بعضهم أراضيها على عدة أنواع، وقال الأحوط أداء العشر من جميع هذه الأنواع. والحق عندنا وجوب العشر في أراضي الهند مطلقاً أي على أي صفة كانت، فيجب والعشر أو نصفه على المسلم فيما يحصل له من الأرض، إذا بلغ النصاب سواء كانت الأرض ملكاً له أو لغيره زرع فيها على سبيل الإجارة أو العارية أو المزارعة. لأن العشر في الحب والزرع والعيرة لمن يملكه، فيجب الزكاة فيه على مالكه المسلم وليس من مؤنة الأرض فلا يبحث عن صفتها والضريبة التي تأخذها المملكة من أصحاب المزارع في الهند ليست خراجها شرعياً ولا مما يسقط فرضة العشر كما لا يخفى وارجع إلى المغني۔ (ص 768/2) (مرعاة‘ ج:3 ص: 38) یعنی انگریزی دور میں ہندی مسلمانوں کی اراضیات کے متعلق علمائے احناف نے جو صاحبان فتویٰ تھے‘ بعض نے یہ خبط اختیار کیا کہ ان زمینوں کی پیداوار میں عشر نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ اراضی دارالحرب ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ زمینیں نہ تو عشری ہیں نہ خراجی بلکہ یہ حکومت کی زمینیں ہیں اور ہمارے نزدیک امرحق یہ ہے کہ اراضی ہند میں مطلقاً پیداوار نصاب پر مسلمانوں کے لیے عشر واجب ہے‘ چاہے وہ زمین ان کی ملک ہو یا غیر کی ہو وہ کاشتکار ہوں یا ٹھیکیدار ہوں بہر حال اناج کی پیداوار جو نصاب کو پہنچ جائے عشرو اجب ہے اور اس بارے میں زمین پر اخراجات اور سرکاری مالیانہ وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہندوستان میں سرکار جو محصول لینی ہے‘ وہ خراج شرعی نہیں ہے اور نہ اس سے عشر ساقط ہوسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "No Zakat is imposed on less than five Awsuq of dates; no Zakat is imposed on less than five Awaq of silver, and no Zakat is imposed on less than five camels."