Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The Zakat of cows)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوحمید ساعدی نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں ( قیامت کے دن اس حال میں ) وہ شخص دکھلادوں گا جو اللہ کی بارگاہ میں گائے کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ وہ گائے بولتی ہوئی ہوگی۔ ( سورئہ مومنون میں لفظ ) جوار ( خوار کے ہم معنی ) یجارون ( اس وقت کہتے ہیں جب ) اس طرح لوگ اپنی آواز بلند کریں جیسے گائے بولتی ہے۔
1460.
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا:’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے:‘‘ یا فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں!‘‘ یااس جیسی کوئی قسم اٹھائی، پھر فرمایا :’’جس شخص کے پاس اونٹ گائے اور بکریاں ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن ان جانوروں کو بڑا اور موٹا تازہ کر کے لایا جائے گا، وہ اسے اپنے پاؤں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے، جب ان سے آخری جانور گزر جائے گا تو پھر پہلے کو لوٹا دیا جائے گا تاآنکہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے۔‘‘ اس روایت کو بکیر نے ابو صالح سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کی زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کو لوگوں کا حساب مکمل ہونے تک عذاب دیا جائے گا، ان جانوروں میں گائے کا بھی ذکر ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس سے گائے کی زکاۃ کا وجوب ثابت کیا ہے لیکن اس کے متعلق زکاۃ کی کیفیت کو بیان نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک ایسی کوئی حدیث ان کی شرائط کے مطابق نہیں تھی، البتہ امام ترمذی ؒ نے حضرت معاذ بن جبل ؒ سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں چالیس گایوں سے مسنہ اور تیس سے ایک تبیعہ بطور زکاۃ وصول کروں۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:623) اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ رسول الله ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیس گایوں میں سے ایک سال کا بچھڑا (تبیعہ) جو دوسرے سال کی عمر میں ہو اور چالیس گایوں میں سے دو سال کا بچھڑا یا بچھڑی (مسنہ) جو تیسرے سال کی عمر میں ہو، زکاۃ ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:622) بھینسوں پر بھی اسی شرح سے زکاۃ لاگو ہوئی، ان کی شرح زکاۃ اس طرح ہے۔ 1 تا 29 گایوں پر کوئی زکاۃ نہیں۔ 2) 30 تا 39 پر یک سالہ بچھڑا یا بچھڑی (تبیعہ) 3) 40 تا 59 پر دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی (مسنہ) 4) 60 تا 69 پر یکسالہ دو بچھڑے یا بچھڑیاں 5) 70 تا 79 ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی + دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی 6) 80 تا 89 دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی 2 عدد 7) 90 تا 99 یکسالہ بچھڑا یا بچھڑی 3 عدد ان کا اصول یہ ہے کہ ہر تیس عدد پر یکسالہ بچھڑا یا بچھڑی اور ہر چالیس کے عدد پر دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی وصول کی جائے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط بھی ہیں: ٭ سال کا بیشتر حصہ وہ جنگل میں گھاس وغیرہ چرتی ہوں۔ ٭ وہ کاشت کاری وغیرہ کے کام آتی ہوں۔ ٭ اگر مستقل طور پر مالک کے خرچ پر گزارہ کرتی ہوں اور انہیں ذاتی استعمال کے لیے رکھا گیا ہے تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں۔ اگر انہیں تجارت یا ڈیری فارم کے طور پر رکھا ہے تو ان کی آمدنی پر زکاۃ ہو گی۔ (3) امام بخاری ؒ نے بکیر کی حدیث کا حوالہ دیا ہے، اسے امام مسلم ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، اس میں اونٹ، گائے اور بکریوں کا ذکر ہے جن سے زکاۃ نہ دی گئی ہو۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2295(987)) (4) امام بخاری ؒ نے گائے کے متعلق زکاۃ کو مؤخر بیان کیا ہے، کیونکہ عرب علاقے میں یہ بہت کم ہوتی ہیں، شاید کہیں اس کا نصاب مکمل ہوتا ہو، غالبا یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے صرف اس کے وجوب ہی کو بیان کیا ہے، دیگر تفاصیل ذکر نہیں کی ہیں۔ (فتح الباري:407/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1422
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1460
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1460
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1460
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو حمید رضی اللہ عنہ کی اس معلق روایت کو کئی ایک مقامات پر متصل سند سے بیان کیا ہے جس میں ابن لتبیہ کا ذکر ہے، البتہ مذکورہ الفاظ کتاب الاحکام میں ذکر کیے ہیں۔ (صحیح البخاری،الاحکام،حدیث:7197) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس میں ایک سخت وعید کا ذکر ہے جو گایوں کی زکاۃ نہ ادا کرنے پر بیان کی گئی ہے۔ اور وعید کسی وجوب کے ترک پر ہوتی ہے، اس لیے مذکورہ وعید گویا گایوں کی زکاۃ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ حدیث میں آمدہ کسی لفظ کی مناسبت سے قرآن کریم کے غریب الفاظ کی تشریح کرتے ہیں، چنانچہ اس حدیث کے بعض طرق میں لفظ خوار کے بجائے جؤار ہے، اس لیے قرآن کے ایک لفظ کی تشریح فرمائی جو سورہ نحل (آیت: 53) میں ہے۔
اور ابوحمید ساعدی نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں ( قیامت کے دن اس حال میں ) وہ شخص دکھلادوں گا جو اللہ کی بارگاہ میں گائے کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ وہ گائے بولتی ہوئی ہوگی۔ ( سورئہ مومنون میں لفظ ) جوار ( خوار کے ہم معنی ) یجارون ( اس وقت کہتے ہیں جب ) اس طرح لوگ اپنی آواز بلند کریں جیسے گائے بولتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا:’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے:‘‘ یا فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں!‘‘ یااس جیسی کوئی قسم اٹھائی، پھر فرمایا :’’جس شخص کے پاس اونٹ گائے اور بکریاں ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن ان جانوروں کو بڑا اور موٹا تازہ کر کے لایا جائے گا، وہ اسے اپنے پاؤں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے، جب ان سے آخری جانور گزر جائے گا تو پھر پہلے کو لوٹا دیا جائے گا تاآنکہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے۔‘‘ اس روایت کو بکیر نے ابو صالح سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کی زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کو لوگوں کا حساب مکمل ہونے تک عذاب دیا جائے گا، ان جانوروں میں گائے کا بھی ذکر ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس سے گائے کی زکاۃ کا وجوب ثابت کیا ہے لیکن اس کے متعلق زکاۃ کی کیفیت کو بیان نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک ایسی کوئی حدیث ان کی شرائط کے مطابق نہیں تھی، البتہ امام ترمذی ؒ نے حضرت معاذ بن جبل ؒ سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں چالیس گایوں سے مسنہ اور تیس سے ایک تبیعہ بطور زکاۃ وصول کروں۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:623) اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ رسول الله ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیس گایوں میں سے ایک سال کا بچھڑا (تبیعہ) جو دوسرے سال کی عمر میں ہو اور چالیس گایوں میں سے دو سال کا بچھڑا یا بچھڑی (مسنہ) جو تیسرے سال کی عمر میں ہو، زکاۃ ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:622) بھینسوں پر بھی اسی شرح سے زکاۃ لاگو ہوئی، ان کی شرح زکاۃ اس طرح ہے۔ 1 تا 29 گایوں پر کوئی زکاۃ نہیں۔ 2) 30 تا 39 پر یک سالہ بچھڑا یا بچھڑی (تبیعہ) 3) 40 تا 59 پر دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی (مسنہ) 4) 60 تا 69 پر یکسالہ دو بچھڑے یا بچھڑیاں 5) 70 تا 79 ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی + دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی 6) 80 تا 89 دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی 2 عدد 7) 90 تا 99 یکسالہ بچھڑا یا بچھڑی 3 عدد ان کا اصول یہ ہے کہ ہر تیس عدد پر یکسالہ بچھڑا یا بچھڑی اور ہر چالیس کے عدد پر دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی وصول کی جائے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط بھی ہیں: ٭ سال کا بیشتر حصہ وہ جنگل میں گھاس وغیرہ چرتی ہوں۔ ٭ وہ کاشت کاری وغیرہ کے کام آتی ہوں۔ ٭ اگر مستقل طور پر مالک کے خرچ پر گزارہ کرتی ہوں اور انہیں ذاتی استعمال کے لیے رکھا گیا ہے تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں۔ اگر انہیں تجارت یا ڈیری فارم کے طور پر رکھا ہے تو ان کی آمدنی پر زکاۃ ہو گی۔ (3) امام بخاری ؒ نے بکیر کی حدیث کا حوالہ دیا ہے، اسے امام مسلم ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، اس میں اونٹ، گائے اور بکریوں کا ذکر ہے جن سے زکاۃ نہ دی گئی ہو۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2295(987)) (4) امام بخاری ؒ نے گائے کے متعلق زکاۃ کو مؤخر بیان کیا ہے، کیونکہ عرب علاقے میں یہ بہت کم ہوتی ہیں، شاید کہیں اس کا نصاب مکمل ہوتا ہو، غالبا یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے صرف اس کے وجوب ہی کو بیان کیا ہے، دیگر تفاصیل ذکر نہیں کی ہیں۔ (فتح الباري:407/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو حمید ؓ نے کہا: نبیﷺ نے فرمایا: "میں اس شخص کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن اللہ کے حضور گائے لے کر حاضر ہوگا اور وہ ڈکاررہی ہوگی۔ "
اس سلسلے میں لفظ خوارکے بجائے جؤاربھی روایت کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ تَجْأَرُونَ کے معنی ہیں کہ تم اپنی آوازیں بلند کرو گے جس طرح گائے اپنی آواز بلند کرتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے معرور بن سوید سے بیان کیا ‘ ان سے ابوذر ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرمارہے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا ( آپ نے قسم اس طرح کھائی ) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو ( اس تاکید کے بعد فرمایا ) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا۔ دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازہ کرکے۔ پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ مارے گی۔ جب آخری جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا۔ ( اور اسے اپنے سینگ مارے گا اور کھروں سے روندے گا ) اس وقت تک ( یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ اس حدیث کو بکیربن عبداللہ نے ابوصالح سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یعنی گائے بیل کی زکوٰۃ دینے کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ عذاب اس امر کے ترک پر ہوگا جو واجب ہے۔ مسلم کی روایت میں اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں اور وہ اس کی زکوٰۃ نہ ادا کرتا ہو۔ حضرت امام بخاری کی شرائط کے مطابق انہیں گائے کی زکوٰۃ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی۔ اس لیے اس باب کے تحت آپ نے اس حدیث کو ذکر کرکے گائے کی زکوٰۃ کی فرضیت پر دلیل پکڑی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar (RA): Once I went to him (the Prophet) and he said, "By Allah in Whose Hands my life is (or probably said, 'By Allah, except Whom none has the right to be worshipped) whoever had camels or cows or sheep and did not pay their Zakat, those animals will be brought on the Day of Resurrection far bigger and fatter than before and they will tread him under their hooves, and will butt him with their horns, and (those animals will come in circle): When the last does its turn, the first will start again, and this punishment will go on till Allah has finished the judgments amongst the people." ________