Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: (Is Zakat imposed on) what is taken out of the sea)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ور عبداللہ بن عباسؓ نے کہا کہ عنبر کو رکاز نہیں کہہ سکتے۔ عنبر تو ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہےور امام بصری نے کہا عنبر اور موتی میں پانچواں حصہ لازم ہے۔ حالانکہ آنحضرتﷺنے رکاز میں پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے۔ تو رکاز اس کو نہیں کہتے جو پانی میں ملے
1498.
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں: "بنی اسرائیل میں سے کسی نے ایک شخص سے ہزار دینار قرض مانگے تو اس نے دے دیے۔ (اتفاقاً وہ قرض دار سفر میں نکلا اور ادائے قرض کاوقت آگیا، لیکن درمیان میں ایک دریاحائل تھا) وہ دریا کی طرف گیا مگر اس نے وہاں کوئی سواری نہ پائی، مجبوراً اس نے لکڑی لی، اس میں سوراخ کیا اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ کر اسے دریا میں بہادیا۔ اتفاق سے وہ شخص جس نے قرض دیا تھا دریا کی طرف آنکلا، اسے یہ لکڑی نظر آئی تو اس نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے بطور ایندھن اٹھا لیا۔ پھر انھوں نےپوری حدیث بیان کی(جس کے آخر میں تھا: )اور اس نے جب لکڑی کوچیرا تو اس میں اپنا مال رکھا ہوا پایا۔ "
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو سمندری مال میں پانچواں حصہ نکالنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ دریا یا سمندر سے جو چیز ملے اسے اپنی ملکیت میں لینا جائز ہے اور اس میں سے کس قسم کا مقررہ حصہ ادا کرنا ضروری نہیں کیونکہ حدیث خشبه میں خمس نکالنے کا ذکر نہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور فعل ہی کی تردید فرمائی ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت نہیں کہ اس طرح کے مال سے خمس نہ نکالنا بنی اسرائیل کی شریعت میں تھا لیکن میرے صحابہ تمہارے لیے ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں جب تک اس سے خمس نہ نکال دیا جائے، اس سے معلوم ہوا کہ سمندر سے ملنے والی اشیاء پر خمس وغیرہ نہیں ہے۔ (فتح الباری:3/457) (2) علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ سمندری چیز لینا مباح ہے اور اس سے خمس ادا کرنا ضروری نہیں، عنوان میں ہے: "جو مال سمندر سے برآمد کیا جائے" اور حدیث میں بھی مال کا سمندر سے برآمد ہونا ثابت ہے، حدیث کی عنوان سے مطابقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے جیسا کہ امام بخاری کی عادت ہے باقی اشیاء کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ (عمدۃالقاری:6/559) امام اوزاعی رحمہ اللہ کے ہاں کچھ تفصیل ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جو چیز ساحل سمندر سے حاصل ہو اس کا خمس ادا کیا جائے اور جو چیز سمندر میں غوطہ لگا کر برآمد کی جائے، اس سے خمس وغیرہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جمہور کے نزدیک سمندر کی کسی چیز پر خمس واجب نہیں۔ (فتح الباری:3/457) (3) اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الکفالۃ، حدیث: (2291) میں تفصیل سے روایت کیا ہے وہاں اس کے مزید فوائد ذکر کیے جائیں گے۔ ان شاءاللہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1459
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1498
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1498
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1498
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
عنبر خوشبو کی ایک قسم ہے جو سمندر سے برآمد کی جاتی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک عنبر وغیرہ میں کوئی زکاۃ نہیں، اس روایت کو امام بیہقی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عنبر کے متعلق توقف کا اظہار کیا ہے۔ ممکن ہے کہ پہلے توقف ہو پھر انہیں یقین ہو گیا ہو کہ اس میں زکاۃ وغیرہ نہیں ہے، البتہ حسن بصری رحمہ اللہ عنبر اور موتیوں میں خمس دینے کے قائل نہیں، اس روایت کو ابو عبید نے کتاب الاموال میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکاز (مدفون خزانے) میں سے خمس نکالنے کا حکم دیا ہے لیکن جو چیز سمندر سے نکالی جائے وہ رکاز نہیں اور نہ اس سے خمس ہی دینا پڑتا ہے، موتی اور عنبر تو مچھلی اور صدف کی طرح ہے، ان میں خمس وغیرہ نہیں۔
ور عبداللہ بن عباسؓ نے کہا کہ عنبر کو رکاز نہیں کہہ سکتے۔ عنبر تو ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہےور امام بصری نے کہا عنبر اور موتی میں پانچواں حصہ لازم ہے۔ حالانکہ آنحضرتﷺنے رکاز میں پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے۔ تو رکاز اس کو نہیں کہتے جو پانی میں ملے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں: "بنی اسرائیل میں سے کسی نے ایک شخص سے ہزار دینار قرض مانگے تو اس نے دے دیے۔ (اتفاقاً وہ قرض دار سفر میں نکلا اور ادائے قرض کاوقت آگیا، لیکن درمیان میں ایک دریاحائل تھا) وہ دریا کی طرف گیا مگر اس نے وہاں کوئی سواری نہ پائی، مجبوراً اس نے لکڑی لی، اس میں سوراخ کیا اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ کر اسے دریا میں بہادیا۔ اتفاق سے وہ شخص جس نے قرض دیا تھا دریا کی طرف آنکلا، اسے یہ لکڑی نظر آئی تو اس نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے بطور ایندھن اٹھا لیا۔ پھر انھوں نےپوری حدیث بیان کی(جس کے آخر میں تھا: )اور اس نے جب لکڑی کوچیرا تو اس میں اپنا مال رکھا ہوا پایا۔ "
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو سمندری مال میں پانچواں حصہ نکالنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ دریا یا سمندر سے جو چیز ملے اسے اپنی ملکیت میں لینا جائز ہے اور اس میں سے کس قسم کا مقررہ حصہ ادا کرنا ضروری نہیں کیونکہ حدیث خشبه میں خمس نکالنے کا ذکر نہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور فعل ہی کی تردید فرمائی ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت نہیں کہ اس طرح کے مال سے خمس نہ نکالنا بنی اسرائیل کی شریعت میں تھا لیکن میرے صحابہ تمہارے لیے ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں جب تک اس سے خمس نہ نکال دیا جائے، اس سے معلوم ہوا کہ سمندر سے ملنے والی اشیاء پر خمس وغیرہ نہیں ہے۔ (فتح الباری:3/457) (2) علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ سمندری چیز لینا مباح ہے اور اس سے خمس ادا کرنا ضروری نہیں، عنوان میں ہے: "جو مال سمندر سے برآمد کیا جائے" اور حدیث میں بھی مال کا سمندر سے برآمد ہونا ثابت ہے، حدیث کی عنوان سے مطابقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے جیسا کہ امام بخاری کی عادت ہے باقی اشیاء کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ (عمدۃالقاری:6/559) امام اوزاعی رحمہ اللہ کے ہاں کچھ تفصیل ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جو چیز ساحل سمندر سے حاصل ہو اس کا خمس ادا کیا جائے اور جو چیز سمندر میں غوطہ لگا کر برآمد کی جائے، اس سے خمس وغیرہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جمہور کے نزدیک سمندر کی کسی چیز پر خمس واجب نہیں۔ (فتح الباری:3/457) (3) اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الکفالۃ، حدیث: (2291) میں تفصیل سے روایت کیا ہے وہاں اس کے مزید فوائد ذکر کیے جائیں گے۔ ان شاءاللہ
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ عنبر رکاز(مدفون خزانہ) نہیں۔ بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو سمندر پھینکتا ہے۔ امام حسن بصری نے کہاعنبر اور موتیوں میں خمس، یعنی پانچواں حصہ زکاۃ ہے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺنے رکاز (مدفون خزانے) میں سے خمس مقرر فرمایاہے نہ کہ اس چیز سے جو پانی سے حاصل کی جائے۔
حدیث ترجمہ:
اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیا ن کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمن بن ہرمز سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے ‘ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دوسرے بنی اسرائیل کے شخص سے ہزار اشرفیاں قرض مانگیں۔ اس نے اللہ کے بھروسے پر اس کو دے دیں۔ اب جس نے قرض لیا تھا وہ سمندر پر گیا کہ سوار ہوجائے اور قرض خواہ کا قرض ادا کرے لیکن سواری نہ ملی۔ آخر اس نے قرض خواہ تک پہنچنے سے ناامید ہوکر ایک لکڑی لی اس کو کریدا اور ہزار اشرفیاں اس میں بھر کروہ لکڑی سمندر میں پھینک دی۔ اتفاق سے قرض خواہ کام کاج کو باہر نکلا ‘ سمندر پر پہنچا تو ایک لکڑی دیکھی اور اس کو گھر میں جلانے کے خیال سے لے آیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ جب لکڑی کو چیرا تو اس میں اشرفیاں پائیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ یہ ثابت فرمانا چاہتے ہیں کہ دریا میں سے جو چیزیں ملیں عنبر موتی وغیرہ ان میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جن حضرات نے ایسی چیزوں کو رکاز میں شامل کیا ہے ان کا قول صحیح نہیں۔ حضرت امام اس ذیل میں یہ اسرائیلی واقعہ لائے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قال الاسماعیلی لیس فی ہذا الحدیث شئی یناسب الترجمۃ رجل اقترض قرضاً فارتجع قرضہ وکذا قال الداودی حدیث الخشبۃ لیس من ہذا الباب فی شئی واجاب عبدالملک بانہ اشاربہ الی ان کل ماالقاہ البحر جاز اخذہ ولا خمس فیہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اسماعیلی نے کہا کہ اس حدیث میں باب سے کوئی وجہ مناسبت نہیں ہے ایسا ہی داؤدی نے بھی کہا کہ حدیث خشبہ کو ( لکڑی جس میں روپیہ ملا ) اس سے کوئی مناسبت نہیں۔ عبدالملک نے ان حضرات کو یہ جواب دیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر وہ چیز جسے دریا باہر پھینک دے اس کا لینا جائز ہے اور اس میں خمس نہیں ہے اس لحاظ سے حدیث اور باب میں مناسبت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں وذہب الجمھورالی انہ لا یجب فیہ شئی یعنی جمہور اس طرف گئے ہیں کہ دریا سے جو چیزیں نکالی جائیں ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اسرائیلی حضرات کا یہ واقعہ قابل عبرت ہے کہ دینے والے نے محض اللہ کی ضمانت پر اس کو ایک ہزار اشرفیاں دے ڈالیں اور اسکی امانت ودیانت کو اللہ نے اس طرح ثابت رکھا کہ لکڑی کو معہ اشرفیوں کے قرض دینے والے تک پہنچا دیا۔ اور اس نے بایں صورت اپنی اشرفیوں کو وصول کرلیا۔ فیالواقع اگر قرض لینے والا وقت پر ادا کرنے کی صحیح نیت دل میں رکھتا ہو تو اللہ پاک ضرور ضرور کسی نہ کسی ذریعہ سے ایسے سامان مہیا کرا دیتا ہے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ مگر آج کل ایسے دیانت دار عنقا ہیں۔ الا ماشاءاللہ وباللہ التوفیق۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) said, "A man from Bani Israel asked someone from Bani Israel to give him a loan of one thousand Dinars and the later gave it to him. The debtor went on a voyage (when the time for the payment of the debt became due) but he did not find a boat, so he took a piece of wood and bored it and put 1000 diners in it and threw it into the sea. The creditor went out and took the piece of wood to his family to be used as fire-wood." (See Hadith No. 488 B, Vol. 3). And the Prophet (ﷺ) narrated the narration (and said), "When he sawed the wood, he found his money."