Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To go for Hajj on a pack-saddle (of a camel))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1518.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ سب لوگوں نے عمرہ کرلیا ہے لیکن میں نہیں کر سکی ہوں۔ آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ سے فرمایا: ’’اپنی ہمشیرہ کولے جاؤ اور انھیں مقام تنعیم سے عمرہ کراؤ۔‘‘ چنانچہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کو اونٹ کے پیچھے پالان پر بٹھا لیا اور اس طرح حضرت عائشہ ؓ نے عمرہ مکمل کیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج میں زیب وزینت اور تکلفات کا ترک کرنا افضل ہے، اس میں انسان کو اپنی سہولیات کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس سفر میں کوئی پریشانی یا تکلیف آئے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے، کسی قسم کا حرف شکایت اپنی زبان پر نہیں لانا چاہیے، کیونکہ یہ سفر،جہاد سے کم نہیں ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ کرنے کےلیے تنعیم روانہ کیا کیونکہ حرم کی قریبی حدود ہی مقام تھا۔ اس کے متعلق مکمل تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1479
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1518
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1518
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1518
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ سب لوگوں نے عمرہ کرلیا ہے لیکن میں نہیں کر سکی ہوں۔ آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ سے فرمایا: ’’اپنی ہمشیرہ کولے جاؤ اور انھیں مقام تنعیم سے عمرہ کراؤ۔‘‘ چنانچہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کو اونٹ کے پیچھے پالان پر بٹھا لیا اور اس طرح حضرت عائشہ ؓ نے عمرہ مکمل کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج میں زیب وزینت اور تکلفات کا ترک کرنا افضل ہے، اس میں انسان کو اپنی سہولیات کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس سفر میں کوئی پریشانی یا تکلیف آئے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے، کسی قسم کا حرف شکایت اپنی زبان پر نہیں لانا چاہیے، کیونکہ یہ سفر،جہاد سے کم نہیں ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ کرنے کےلیے تنعیم روانہ کیا کیونکہ حرم کی قریبی حدود ہی مقام تھا۔ اس کے متعلق مکمل تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر وبن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایمن بن نابل نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ انھوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ لوگوں نے تو عمرہ کرلیا لیکن میں نہ کرسکی۔ اس لئے آنحضور ﷺ نے فرمایا عبدالرحمن اپنی بہن کو لے جا اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرالا۔ چنانچہ انہوں نے عائشہ ؓ کو اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھا لیا اور عائشہ ؓ نے عمرہ ادا کیا۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت نے حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم بھیجا۔ اس بارے میں حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان ؒ فرماتے ہیں۔ میقاتش حل است ازبرائے مکی بحدیث صحیحین وغیرہما کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمن بن ابی بکر را امر فرمود باعائشۃ بسوئے تنعیم برآید ووئے ازانجا عمرہ برآردوہر کہ آنرااز مسکن ومکہ صحیح گوید جواب دادہ کہ این امر بنابر تطیب خاطر عائشہ بو د تا ازحل بکہ درآید چنانکہ دیگر ازواج کردنداواین واجب خلاف ظاہر است۔ ہاصل آنکہ ازوے ﷺ تعین میقات عمرہ واقع نشدہ وتعیین میقات حج ازبرائے اہل ہر جست ثابت گشتہ پس اگر عمرہ دریں مواقیت ہمچوحج باشد آنحضرت ﷺ درحدیث صحیح گفتہ فمن کان دونهم فمهله من أهله وکذلك أهل مکة یهلون منها واین در صحیحین است بلکہ درحقیقت ابن عباس بعد ذکر مواقیت اہل ہر محل تصریح آمدہ با آنکہ رسول خدا ﷺ فرمود حدیث فهن لأ هلهن ولمن أتی علیهن من غیر أهلھن لمن کان یرید الحج والعمرة واین حدیث درصحیحین است ودران تصریح بعمرہ است۔ (بدور الأهلة، ص:152) اہل مکہ کے لئے عمرہ کا میقات حل ہے۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ کو فرمایا کہ وہ اپنی بہن عائشہ کو تنعیم لے جائیں اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کرآئیں اور جن علماء نے یہ کہا کہ عمرہ کا میقات اپنا گھر اور مکہ ہی ہے، انہوںنے اس حدیث کے بارے میں جواب دیا کہ یہ آنحضرت ﷺ نے محض حضرت عائشہ ؓ کی دل جوئی کے لئے فرمایا تھا تاکہ وہ حل سے کر آئیں جیسا کہ دیگر ازواج مطہرات نے کیا تھا اور یہ جواب ظاہر کے خلاف ہے، حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ سے عمرہ کے لیے میقات کا تعیین واقع نہیں ہوا اور میقات حج کا تعیین ہر جہت والوں کے لئے ثابت ہواہے۔ پس اگر عمرہ ان مواقیت میں حج کی مانند ہو تو آنحضرت ﷺ نے حدیث صحیح میں فرمایاہے کہ جو لوگ میقات کے اندر ہوں ان کا میقات ان کا گھر ہے وہ اپنے گھروں سے احرام باندھیں۔ اسی طرح مکہ والے بھی مکہ ہی سے احرام باندھیں اور یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ بلکہ حدیث ابن عباس ؓ میں ہرجگہ کی میقات کا ذکر کرنے کے بعد صراحتاً آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پس یہ میقات ان لوگوں کے لئے ہیں جو ان کے اہل ہیں اور جو بھی ادھر سے گزریں حالانکہ وہ یہاں کے باشندے نہ ہوں۔ پھر ان کے لئے میقات یہی مقامات ہیں جو بھی حج اور عمرے کا ارادہ کر کے آئیں۔ پس اس حدیث میں صراحتاً عمرہ کا لفظ موجود ہے۔ نواب مرحوم کا اشارہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب حج کا احرام مکہ والے مکہ ہی سے باندھیں گے اور ان کے گھر ہی ان کے میقات ہیں تو عمرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ حدیث ہذا میں رسول کریم ﷺ نے حج اور عمرہ کا ایک ہی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ بہ سلسلہ میقات جس قدر احکامات حج کے لئے ہیں وہی سب عمرہ کے لئے ہیں۔ ان کی بنا پر صرف مکہ شریف سے عمرہ کا احرام باندھنے والوں کے لئے تنعیم جانا ضروری نہیں ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Qasim bin Muhammad (RA): 'Aisha (RA) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! You performed 'Umra but I did not." He said, "O 'Abdur-Rahman! Go along with your sister and let her perform 'Umra from Tan'im." 'Abdur-Rahman made her ride over the pack-saddle of a she-camel and she performed 'Umra. ________