باب: حیض والی اور نفاس والی عورتیں کس طرح احرام باندھیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: How should a menstruating woman and a woman in a puerperal state assume Ihram?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عرب لوگ کہتے ہیں «أهل» یعنی بات منہ سے نکال دی «واستهللنا وأهللنا الهلال» ان سب سے لفظوں کا معنی ظاہر ہونا ہے اور «واستهل المطر» معنی پانی ابر میں سے نکلا۔ اور قرآن شریف (سورۃ المائدہ) میں جو «وما أهل لغير الله به» ہے اس کے معنی جس جانور پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے اور بچہ کے «استهلال» سے نکلا ہے۔ یعنی پیدا ہوتے وقت اس کا آواز کرنا۔
1556.
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نکلے پہلے ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس قربانی ہے اسے عمرے کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لینا چاہیے، پھر ایسا شخص حج اور عمرہ دونوں سے فراغت کے بعد ہی حلال ہوگا۔‘‘ حضر ت ام المومنین ؓ فرماتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ آئی تو بحالت حیض تھی، اس لیے بیت اللہ کاطواف اور صفا مروہ کی سعی نہ کرسکی۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ’’اپنے سر کے بال کھول کر ان میں کنگھی کر لو اور عمرے کو چھوڑ کر صرف حج کی نیت کرلو۔‘‘ میں نے تعمیل حکم کی۔ پھر جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے میرے بھائی حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ تنعیم بھیجا تو میں نے وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمہارے اس ترک کردہ عمرے کے بدلے میں ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جن لوگوں نے صرف عمرے کا احرام باندھاتھا وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے حلال ہوگئے، پھر منیٰ سے واپسی کے بعد انھوں نے دوسرا طواف (زیارت) کیا۔ لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا انھوں نے صرف ایک ہی طواف کیا۔
تشریح:
(1) حضرت عائشہ ؓ کو تین ذوالحجہ بروز ہفتہ مقام سرف پر حیض آیا اور دس ذوالحجہ بروز ہفتہ وہ حیض سے پاک ہو گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حیض والی عورت کو صرف حج کا احرام باندھنا چاہیے، وہ لبیک پکار کر حج کی نیت کرے۔ (2) بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ عمرہ کو بالفعل رہنے دے اور حج کے ارکان شروع کر دے، اس دوران میں سر کھولنے اور کنگھی کرنے سے احرام ختم نہیں ہو گا، مگر یہ موقف ظاہر حدیث کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے فراغت حج کے بعد عمرہ دوبارہ کیا تھا۔ اسی طرح جن لوگوں نے حج قران کی نیت کی ہو انہیں ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے کیونکہ عمرے کے افعال حج میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1515
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1556
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1556
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1556
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
چونکہ حدیث میں لفظ أَهَل استعمال ہوا ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس کی لغوی تحقیق بیان کرتے ہیں کہ ان تمام الفاظ میں ظہور کے معنی پائے جاتے ہیں کیونکہ جب کوئی کلام کرتا ہے تو وہ اپنی زبان کے ذریعے سے دل کی بات کو ظاہر کرتا ہے اور جب ہلال طلوع ہوتا ہے تو لوگ اسے دیکھ کر شور مچاتے ہیں۔ اہلال کے معنی آواز بلند کرنا ہے۔ ولادت کے وقت جب بچہ چلاتا ہے تو اس وقت بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور قرآن مجید میں ہے: (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ) (المآئدۃ3:5) اس سے مراد وہ جانور ہے جو غیر اللہ کے نام پر مشہور کر دیا گیا ہو۔ الغرض أهل کے معنی بآواز بلند تلبیہ کہنا ہے، پھر اس میں مزید وسعت پیدا کر کے احرام باندھنے پر اسے بولا جاتا ہے۔
عرب لوگ کہتے ہیں «أهل» یعنی بات منہ سے نکال دی «واستهللنا وأهللنا الهلال» ان سب سے لفظوں کا معنی ظاہر ہونا ہے اور «واستهل المطر» معنی پانی ابر میں سے نکلا۔ اور قرآن شریف (سورۃ المائدہ) میں جو «وما أهل لغير الله به» ہے اس کے معنی جس جانور پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے اور بچہ کے «استهلال» سے نکلا ہے۔ یعنی پیدا ہوتے وقت اس کا آواز کرنا۔
حدیث ترجمہ:
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نکلے پہلے ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس قربانی ہے اسے عمرے کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لینا چاہیے، پھر ایسا شخص حج اور عمرہ دونوں سے فراغت کے بعد ہی حلال ہوگا۔‘‘ حضر ت ام المومنین ؓ فرماتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ آئی تو بحالت حیض تھی، اس لیے بیت اللہ کاطواف اور صفا مروہ کی سعی نہ کرسکی۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ’’اپنے سر کے بال کھول کر ان میں کنگھی کر لو اور عمرے کو چھوڑ کر صرف حج کی نیت کرلو۔‘‘ میں نے تعمیل حکم کی۔ پھر جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے میرے بھائی حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ تنعیم بھیجا تو میں نے وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمہارے اس ترک کردہ عمرے کے بدلے میں ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جن لوگوں نے صرف عمرے کا احرام باندھاتھا وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے حلال ہوگئے، پھر منیٰ سے واپسی کے بعد انھوں نے دوسرا طواف (زیارت) کیا۔ لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا انھوں نے صرف ایک ہی طواف کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عائشہ ؓ کو تین ذوالحجہ بروز ہفتہ مقام سرف پر حیض آیا اور دس ذوالحجہ بروز ہفتہ وہ حیض سے پاک ہو گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حیض والی عورت کو صرف حج کا احرام باندھنا چاہیے، وہ لبیک پکار کر حج کی نیت کرے۔ (2) بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ عمرہ کو بالفعل رہنے دے اور حج کے ارکان شروع کر دے، اس دوران میں سر کھولنے اور کنگھی کرنے سے احرام ختم نہیں ہو گا، مگر یہ موقف ظاہر حدیث کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے فراغت حج کے بعد عمرہ دوبارہ کیا تھا۔ اسی طرح جن لوگوں نے حج قران کی نیت کی ہو انہیں ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے کیونکہ عمرے کے افعال حج میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
اهل کے معنی بات چیت کرنا ہیں استهللنا اوراهللنا یہ سب ظہورکے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ استهل المطر کے معنی : پانی بادل سے نکلا۔ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ "اور جو جانور غیر اللہ کے لیے نامزد کردیا جائے۔ "میں أُهِلَّ استهلال الصبي سے لیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں: بچے کارونے کی آواز بلند کرنا۔
وضاحت:چونکہ حدیث میں لفظ اهل استعمال ہواہے۔ اس لیے امام بخاری اس کی لغوی تحقیق بیان کرتے ہیں کہ ان تمام الفاظ میں ظہور کے معنی پائےجاتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب سے خبردی، انہیں عروہ بن زبیر نے، ان سے نبی کریم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم حجتہ الوداع میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پہلے ہم نے عمرہ کا احرام باندھا لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہوتو اسے عمرہ کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لیناچاہئے۔ ایسا شخص درمیان میں حلال نہیں ہوسکتا بلکہ حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ حلال ہوگا۔ میں بھی مکہ آئی تھی اس وقت میں حائضہ ہوگئی، اس ليے نہ بیت اللہ کا طواف کرسکی اور نہ صفا اور مروہ کی سعی۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے شکوہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا سرکھول ڈال، کنگھا کر اور عمرہ چھوڑ کر حج کا احرام باندھ لے۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے میرے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ساتھ تنعیم بھیجا۔ میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا ( اور عمرہ ادا کیا ) آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلے میں ہے۔ ( جسے تم نے چھوڑ دیا تھا ) حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جن لوگوں نے ( حجۃ الوداع میں ) صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا، و ہ بیت اللہ کا طواف صفا اور مروہ کی سعی کر کے حلال ہوگئے۔ پھر منیٰ سے واپس ہونے پر دوسرا طواف ( یعنی طواف الزیارۃ ) کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا، انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا یعنی طواف الزیارۃ کیا۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : حضرت نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ چھوڑنے کے لئے فرمایا۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلا کہ حیض والی عورت کو صرف حج کا احرام باندھنا درست ہے، وہ احرام کا دوگانہ نہ پڑھے۔ صرف لبیک پکارکر حج کی نیت کرلے۔ اس روایت سے صاف یہ نکلا کہ حضرت عائشہ ؓ نے عمرہ چھوڑدیا اور حج مفرد کا احرام باندھا۔ حنفیہ کا یہی قول ہے اور شافعی کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ عمرہ کو بالفعل رہنے دے۔ حج کے ارکان ادا کرنا شروع کردے، تو حضرت عائشہ ؓ نے قران کیا، اور سرکھولنے اور کنگھی کرنے میں احرام کی حالت میں قباحت نہیں۔ اگر بال نہ گریں مگر یہ تاویل ظاہر کے خلاف ہے۔ ( وحیدی ) وأما الذین جمعوا الحج والعمرة سے معلوم ہوا کہ قارن کو ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے اور عمرے کے افعال حج میں شریک ہوجاتے ہیں۔ امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد اور جمہور علماء کا یہی قول ہے۔ اس کے خلاف کوئی پختہ دلیل نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): (the wife of the Prophet (ﷺ) We set out with the Prophet (ﷺ) in his last Hajj and we assumed Ihram for Umra. The Prophet (ﷺ) then said, "Whoever has the Hadi with him should assume Ihram for Hajj along with 'Umra and should not finish the Ihram till he finishes both." I was menstruating when I reached Makkah, and so I neither did Tawaf round the Ka’bah nor Tawaf between Safa and Marwa. I complained about that to the Prophet (ﷺ) on which he replied, "Undo and comb your head hair, and assume Ihram for Hajj (only) and leave the Umra." So, I did so. When we had performed the Hajj, the Prophet (ﷺ) sent me with my brother 'Abdur-Rahman bin Abu Bakr (RA) to Tan'im. So I performed the 'Umra. The Prophet (ﷺ) said to me, "This 'Umra is instead of your missed one." Those who had assumed Ihram for 'Umra (Hajj-atTamattu) performed Tawaf round the Ka’bah and between Safa and Marwa and then finished their Ihram. After returning from Mina, they performed another Tawaf (between Safa and Marwa). Those who had assumed Ihram for Hajj and 'Umra together (Hajj-al-Qiran) performed only one Tawaf (between Safa and Marwa). ________