باب: جس نے نبی کریم ﷺکے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت نبی کریم کی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Whoever assumed Ihram with the same intention as that of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا ہے۔
1557.
حضرت عطاء ؒ سے روایت ہے کہ حضرت جابر ؓ نے کہا: نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں۔ اور انھوں نے سراقہ بن مالک ؓ کاقول بھی ذکر کیا۔
تشریح:
(1) حج کے سلسلے میں مبہم نیت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ تاکہ جواز کی صورت میں پیش آمدہ حالات و ظروف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں تبدیلی کی جا سکے۔ امام بخارى ؒ کا رجحان اس طرف ہے کہ اس کا جواز صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھا جیسا کہ ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔ (2) اس کے متعلق امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ کی روایت انتہائی اختصار سے پیش کی ہے۔ ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے: حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے حج کا احرام باندھا، لیکن رسول اللہ ﷺ اور حضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا، حضرت علی ؓ یمن سے آئے تو وہ اپنی قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے اور ان کا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر فرمایا: ’’جو شخص اپنے ساتھ قربانی نہیں لایا وہ اس احرام کو عمرے میں بدل لے۔ طواف اور سعی کر کے حلال ہو جائے۔ اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتا۔‘‘(صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1785) رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: وہ اپنے احرام کو جوں کا توں رکھے اور اسے قربانیوں میں شریک کر لیا۔ (صحیح البخاري، الشرکة، حدیث:2506) (3) اس حدیث میں اجمالی طور پر حضرت سراقہ ؓ کا ذکر بھی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! احرام حج کو ختم کر کے عمرے میں بدل لینا پھر طواف اور سعی کر کے حلال ہو جانا صرف آپ کے (زمانہ مبارک کے) ساتھ خاص ہے (یا آئندہ کے لیے بھی ایسا ہو سکتا ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں! بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے، یعنی عمرے کو حج میں داخل کر دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1785)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1516
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1557
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1557
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1557
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی کتاب المغازی، حدیث: 4353 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے احرام کا ذکر ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی مثل احرام باندھا تھا۔
یہ عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عطاء ؒ سے روایت ہے کہ حضرت جابر ؓ نے کہا: نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں۔ اور انھوں نے سراقہ بن مالک ؓ کاقول بھی ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حج کے سلسلے میں مبہم نیت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ تاکہ جواز کی صورت میں پیش آمدہ حالات و ظروف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں تبدیلی کی جا سکے۔ امام بخارى ؒ کا رجحان اس طرف ہے کہ اس کا جواز صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھا جیسا کہ ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔ (2) اس کے متعلق امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ کی روایت انتہائی اختصار سے پیش کی ہے۔ ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے: حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے حج کا احرام باندھا، لیکن رسول اللہ ﷺ اور حضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا، حضرت علی ؓ یمن سے آئے تو وہ اپنی قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے اور ان کا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر فرمایا: ’’جو شخص اپنے ساتھ قربانی نہیں لایا وہ اس احرام کو عمرے میں بدل لے۔ طواف اور سعی کر کے حلال ہو جائے۔ اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتا۔‘‘(صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1785) رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: وہ اپنے احرام کو جوں کا توں رکھے اور اسے قربانیوں میں شریک کر لیا۔ (صحیح البخاري، الشرکة، حدیث:2506) (3) اس حدیث میں اجمالی طور پر حضرت سراقہ ؓ کا ذکر بھی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! احرام حج کو ختم کر کے عمرے میں بدل لینا پھر طواف اور سعی کر کے حلال ہو جانا صرف آپ کے (زمانہ مبارک کے) ساتھ خاص ہے (یا آئندہ کے لیے بھی ایسا ہو سکتا ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں! بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے، یعنی عمرے کو حج میں داخل کر دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1785)
ترجمۃ الباب:
اس امر کو حضرت عبداللہ بن عمرؓنے نبی کریم ﷺسے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا کہ کہ جابر ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے علی ؓ کو حکم دیا تھاکہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں۔ انہوں نے سراقہ کا قول بھی ذکر کیاتھا۔ اور مخدوم بن ابی بکر نے ابن جریج سے یو ں روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایاعلی ! تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے؟ انہو ں نے عرض کی نبی کریم ﷺ نے جس کا احرام باندھا ہو ( اسی کا میں نے بھی باندھا ہے ) آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ پھر قربانی کر اور اپنی اسی حالت پر احرام جاری رکھ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ata (RA): Jabir said, "The Prophet (ﷺ) ordered Ali to keep on assuming his Ihram." The narrator then informed about the narration of Suraqa.