باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Hajj-at-Tamattu', Hajj-al-Qiran, and Hajj-al-Ifrad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1569.
حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عثمان ؓ اور علی ؓ کامقام عسفان میں حج تمتع کے متعلق اختلاف ہوا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ آپ اس کام سے منع کرنا چاہتے ہیں جسے نبی کریم ﷺ نے کیا ہے۔ (حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیجیے۔ ) جب حضرت علی ؓ نے یہ دیکھا تو انھوں نے حج اور عمرے دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا۔
تشریح:
(1) حضرت علی ؓ نے حج قران کا احرام باندھا جبکہ ان کا حضرت عثمان ؓ سے اختلاف حج تمتع کے متعلق تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ حج تمتع اور قران دونوں سے منع کرتے تھے جیسا کہ حدیث: 1563 میں ہے۔ (2) حضرت عثمان ؓ اس لیے منع کرتے تھے کہیں لوگ حج افراد کو نظر انداز نہ کر دیں، یعنی ان کا اختلاف جواز یا عدم جواز کے متعلق نہیں تھا بلکہ افضل اور غیر افضل کے بارے میں تھا۔ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حج تمتع سے منع کیا لیکن جب حضرت على ؓ اور آپ کے ساتھیوں نے عمرے کا احرام باندھا تو حضرت عثمان ؓ نے انہیں منع نہ کیا۔ حضرت علی ؓ نے انہیں کہا: کیا آپ کو علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمتع کیا تھا؟ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: ہاں، مجھے علم ہے لیکن اس وقت ہم خوفزدہ تھے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2962 (1223))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1528
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1569
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1569
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1569
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتع، حج قران، حج افراد۔ ٭ حج تمتع: اس سے مراد حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا، پھر عمرہ کر کے احرام کھول دینا اور غیر محرم ہی رہنا حتی کہ آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لیے احرام باندھنا۔ اس حج میں قربانی کرنا ضروری ہے۔ ٭ حج قِران: اس سے مراد میقات سے حج اور عمرے کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا اور سعی کرنے کے بعد احرام نہ کھولنا بلکہ حالت احرام ہی میں ایام حج کا انتظار کرنا اور اسی احرام سے حج مکمل کرنا۔ اس میں مسنون یہ ہے کہ قربانی ساتھ لے کر جائے۔ ٭ حج افراد: میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسک حج سرانجام دینا حج افراد کہلاتا ہے۔ اس میں قربانی واجب نہیں۔ میقات سے صرف عمرے کے ارادے سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرنا، عمرہ مفردہ کہلاتا ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہر قسم کی الگ نیت کرنا ضروری ہے، مبہم نیت کافی نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا تینوں اقسام میں سے کسی ایک قسم حج کی نیت کی جا سکتی ہے، ان کے جواز پر اجماع ہے، البتہ حج تمتع افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قِران کیا تھا لیکن آپ نے فرمایا تھا: "اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں قربانی لے کر نہ چلتا بلکہ اسے عمرہ بنا لیتا۔" (مسنداحمد:3/147) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل عمل ہی کی تمنا کر سکتے ہیں، نیز اس میں سہولت بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ احادیث میں حج کی تینوں اقسام کو بیان کیا ہے۔
حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عثمان ؓ اور علی ؓ کامقام عسفان میں حج تمتع کے متعلق اختلاف ہوا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ آپ اس کام سے منع کرنا چاہتے ہیں جسے نبی کریم ﷺ نے کیا ہے۔ (حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیجیے۔ ) جب حضرت علی ؓ نے یہ دیکھا تو انھوں نے حج اور عمرے دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت علی ؓ نے حج قران کا احرام باندھا جبکہ ان کا حضرت عثمان ؓ سے اختلاف حج تمتع کے متعلق تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ حج تمتع اور قران دونوں سے منع کرتے تھے جیسا کہ حدیث: 1563 میں ہے۔ (2) حضرت عثمان ؓ اس لیے منع کرتے تھے کہیں لوگ حج افراد کو نظر انداز نہ کر دیں، یعنی ان کا اختلاف جواز یا عدم جواز کے متعلق نہیں تھا بلکہ افضل اور غیر افضل کے بارے میں تھا۔ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حج تمتع سے منع کیا لیکن جب حضرت على ؓ اور آپ کے ساتھیوں نے عمرے کا احرام باندھا تو حضرت عثمان ؓ نے انہیں منع نہ کیا۔ حضرت علی ؓ نے انہیں کہا: کیا آپ کو علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمتع کیا تھا؟ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: ہاں، مجھے علم ہے لیکن اس وقت ہم خوفزدہ تھے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2962 (1223))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے عمروبن مرہ نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ عسفان آئے تو ان میں باہم تمتع کے سلسلے میں اختلاف ہوا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ جس کو رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے اس سے آپ کیوں روک رہے ہیں؟ اس پر عثمان ؓ نے فرمایا کہ مجھے اپنے حال پر رہنے دو۔ یہ دیکھ کر علی ؓ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا۔
حدیث حاشیہ:
عسفان ایک مقام ہے مکہ سے 36 میل پر یہاں کے تربوز مشہور ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے گو خود تمتع نہیں کیا تھا مگر دوسرے لوگوں کو اس کا حکم دیا تو گویا خود کیا۔ یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بحث تو تمتع میں تھی پھر حضرت علی ؓ نے قران کیا، اس کا کیا مطلب ہے۔ جواب یہ ہے کہ قران اور تمتع دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت عثمان ؓ دونوں کو ناجائز سمجھتے تھے۔ عجیب بات ہے قرآن شریف میں صاف یہ موجودہے۔ ﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ﴾ اور احادیث صحیحہ متعدد صحابہ کی موجود ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت ﷺ نے تمتع کا حکم دیا۔ پھر ان صاحبوں کا اس سے منع کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ اس تمتع سے منع کرتے تھے کہ حج کی نیت کر کے حج کا فسخ کردینا اس کو عمرہ بنا دینا۔ مگر یہ بھی صراحتا احادیث سے ثابت ہے۔ بعضوں نے کہا یہ ممانعت بطور تنزیہ کے تھی۔ یعنی تمتع کو فضیلت کے خلاف جانتے تھے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ حدیث سے صاف یہ ثابت ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے۔ حاصل کلام یہ کہ یہ مقام مشکل ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان ؓ کوحضرت علی ؓ کے مقابل کچھ جواب نہ بن پڑا۔ اس سلسلہ میں حافظ صاحب فرماتے ہیں:فِي قِصَّةِ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ مِنَ الْفَوَائِدِ إِشَاعَةُ الْعَالِمِ مَا عِنْدَهُ مِنَ الْعِلْمِ وَإِظْهَارُهُ وَمُنَاظَرَةُ وُلَاةِ الْأُمُورِ وَغَيْرِهِمْ فِي تَحْقِيقِهِ لِمَنْ قَوِيَ عَلَى ذَلِكَ لِقَصْدِ مُنَاصَحَةِ الْمُسْلِمِينَ وَالْبَيَانُ بِالْفِعْلِ مَعَ الْقَوْلِ وَجَوَازُ الِاسْتِنْبَاطِ مِنَ النَّصِّ لِأَنَّ عُثْمَانَ لَمْ يَخْفَ عَلَيْهِ أَنَّ التَّمَتُّعَ وَالْقِرَانَ جَائِزَانِ وَإِنَّمَا نَهَى عَنْهُمَا لِيُعْمَلَ بِالْأَفْضَلِ كَمَا وَقَعَ لِعُمَرَ لَكِنْ خَشِيَ عَلِيٌّ أَنْ يَحْمِلَ غَيْرُهُ النَّهْيَ عَلَى التَّحْرِيمِ فَأَشَاعَ جَوَازَ ذَلِكَ وَكُلٌّ مِنْهُمَا مُجْتَهِدٌ مَأْجُورٌ۔ ( فتح الباری ) یعنی حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کے واقعہ مذکورہ میں بہت سے فوائد ہیں۔ مثلاً جو کچھ کسی کے پاس علم ہو اس کی اشاعت کرنا اور اہل اسلام کی خیر خواہی کے لئے امرحق کا اظہار کرنا یہاں تک کہ اگر مسلمان حاکموں سے مناظرہ تک کی نوبت پہنچ جائے تویہ بھی کرڈالنا اور کسی امرحق کا محض بیان ہی نہیں کرنا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھلادینااور نص سے کسی مسئلہ کا استنباط کرنا۔ کیونکہ حضرت عثمان ؓ سے یہ چیز مخفی نہ تھی حج تمتع اور قران بھی بھی جائز ہیں مگر انہوں نے افضل پر عمل کرنے کا خیال سے تمتع سے منع فرمایا۔ جیسا کہ حضرت عمر ؓ سے بھی واقع ہوا اور حضرت علی ؓ نے اسے اس پر محمول کیا کہ عوام الناس کہیں اس نہ کو تحریم پر محمول نہ کر بیٹھیں۔ اس لیے انہوں نے اس کے جواز کا اظہار فرمایا بلک ہ عمل بھی کر کے دکھلا دیا۔ پس ان میں دونوں ہی مجتہد ہیں اور ہر دو کو اجرو ثواب ملے گا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ کوئی فروعی اختلاف واقع ہو تو اس پر ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہئے۔ بلکہ صرف اپنی تحقیق پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ایسے فروعی امور میں اختلاف فہم کا ہوناقدرتی چیزہے۔ جس کے لئے صدہا مثالیں سلف صالحین میں موجود ہیں۔ مگر صدافسوس کہ دور حاضرہ کے کم فہم علماء نے ایسے ہی اختلافات کو رائی کا پہاڑ بناکر امت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ اللهم ارحم علی أمة حبیبك۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Al-Musaiyab (RA): 'Ali and 'Uthman differed regarding Hajj-at-Tamattu' while they were at 'Usfan (a familiar place near Makkah). 'Ali said, "I see you want to forbid people to do a thing that the Prophet (ﷺ) did?" When 'Ali saw that, he assumed Ihram for both Hajj and 'Umra. ________