باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کی جگہ بنایا ہے اور اس طرح حرمت والے مہینہ کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «وأن الله بكل شىء عليم» تک۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1592.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ لوگ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس روز کعبہ شریف کو غلاف پہنایاجاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں بیت اللہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے کہ عاشوراء کے دن اسے غلاف پہنایا جاتا تھا۔ (2) کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یمن کے حیری بادشاہ اسعد تبع نے بیت اللہ کو غلاف پہنایا تھا۔ ہر دور میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جاہلیت میں بھی بیت اللہ کی تعظیم کے پیش نظر اسے غلاف پہنایا جاتا تھا، نیز غلاف پہنانے کا اہتمام محرم کی دسویں تاریخ، یعنی عاشوراء کے دن کیا جاتا تھا۔ امام ابو جعفر باقر کے زمانے تک یہ روایت قائم رہی، اس کے بعد ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو غلاف پہنانے کا آغاز ہوا جو آج تک قائم ہے۔ حکومت سعودیہ نے ایک مستقل محکمہ غلاف کعبہ کے لیے قائم کیا ہے جو سارا سال اس کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔ اس پر لاکھوں ریال اخراجات اٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادیر قائم رکھے تاکہ بیت اللہ کی حرمت و عظمت کو برقرار رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہو۔ آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1551
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1592
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1592
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1592
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ لوگ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس روز کعبہ شریف کو غلاف پہنایاجاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں بیت اللہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے کہ عاشوراء کے دن اسے غلاف پہنایا جاتا تھا۔ (2) کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یمن کے حیری بادشاہ اسعد تبع نے بیت اللہ کو غلاف پہنایا تھا۔ ہر دور میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جاہلیت میں بھی بیت اللہ کی تعظیم کے پیش نظر اسے غلاف پہنایا جاتا تھا، نیز غلاف پہنانے کا اہتمام محرم کی دسویں تاریخ، یعنی عاشوراء کے دن کیا جاتا تھا۔ امام ابو جعفر باقر کے زمانے تک یہ روایت قائم رہی، اس کے بعد ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو غلاف پہنانے کا آغاز ہوا جو آج تک قائم ہے۔ حکومت سعودیہ نے ایک مستقل محکمہ غلاف کعبہ کے لیے قائم کیا ہے جو سارا سال اس کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔ اس پر لاکھوں ریال اخراجات اٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادیر قائم رکھے تاکہ بیت اللہ کی حرمت و عظمت کو برقرار رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہو۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحىٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا ( دوسری سند امام بخاری ؓ نے کہا ) اور مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن ابی حفصہ نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رمضان ( کے روزے ) فرض ہونے سے پہلے مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ عاشوراء ہی کے دن ( جاہلیت میں ) کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان فرض کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس میں عاشوراء کے دن کعبہ پر پردہ ڈالنے کا ذکر ہے جس سے کعبہ شریف کی عظمت ثابت ہوئی جو باب کا مقصود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aishah (RA): The people used to fast on 'Ashura (the tenth day of the month of Muharram) before the fasting of Ramadan was made obligatory. And on that day the Ka’bah used to be covered with a cover. When Allah made the fasting of the month of Ramadan compulsory, Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever wishes to fast (on the day of 'Ashura') may do so; and whoever wishes to leave it can do so." ________