Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To kiss the Black Stone)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1611.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے۔ ان سے ایک آدمی نے حجراسود کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے ہاتھ لگانے اور بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ اس شخص کا بیان ہے۔ کہ میں نے عرض کیا: اچھا بتایے اگر مجمع زیادہ ہواور لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو میں کیا کروں؟حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اس قسم کی اگر مگر یمن میں رہنے دو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے بوسہ دیتے ہوئے اور چومتے ہوئے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) حضرت ابن عمر ؓ سے سوال کرنے والا شخص یمنی تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ اگر تو سنت کا طالب ہے اور اسی لیے اتنی دور کا سفر کیا ہے تو اپنی رائے کو چھوڑ اور سنت پر عمل کر۔ حضرت ابن عمر ؓ کے جذبہ اتباع سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و عمل کے مقابلے میں حیلوں اور بہانوں کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایمان کی نشانی یہ ہے حدیث سننے کے بعد فورا اس پر عمل شروع کر دیا جائے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے خیال کیا کہ سائل اگر مگر کے ذریعے سے حدیث کا معارضہ کرتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا چشم دید واقعہ دوبارہ بیان کیا۔ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازدحام ترک استلام کے لیے عذر نہیں، چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ رکن کے استلام پر مزاحمت کرتے حتی کہ زخمی ہو جاتے، البتہ حضرت ابن عباس ؓ اس مزاحمت کو مکروہ خیال کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ استلام کرتے وقت کسی کو تکلیف نہ دو، کسی دوسرے کے لیے اذیت کا باعث نہ بنو۔ (3) واضح رہے کہ حجراسود کو بوسہ دیتے وقت آواز پیدا نہ کی جائے، چنانچہ سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جب حجراسود کو بوسہ دو تو آواز بلند نہ کرو۔ (فتح الباري:600/3) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن یہ پتھر اس حالت میں آئے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن کے ذریعے سے یہ دیکھے گا اور زبان ہو گی جس کے ذریعے سے یہ بول کر ایسے شخص کے لیے گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کا بوسہ لیا ہو گا۔‘‘(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:2944)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1570
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1611
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1611
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1611
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے۔ ان سے ایک آدمی نے حجراسود کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے ہاتھ لگانے اور بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ اس شخص کا بیان ہے۔ کہ میں نے عرض کیا: اچھا بتایے اگر مجمع زیادہ ہواور لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو میں کیا کروں؟حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اس قسم کی اگر مگر یمن میں رہنے دو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے بوسہ دیتے ہوئے اور چومتے ہوئے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عمر ؓ سے سوال کرنے والا شخص یمنی تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ اگر تو سنت کا طالب ہے اور اسی لیے اتنی دور کا سفر کیا ہے تو اپنی رائے کو چھوڑ اور سنت پر عمل کر۔ حضرت ابن عمر ؓ کے جذبہ اتباع سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و عمل کے مقابلے میں حیلوں اور بہانوں کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایمان کی نشانی یہ ہے حدیث سننے کے بعد فورا اس پر عمل شروع کر دیا جائے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے خیال کیا کہ سائل اگر مگر کے ذریعے سے حدیث کا معارضہ کرتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا چشم دید واقعہ دوبارہ بیان کیا۔ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازدحام ترک استلام کے لیے عذر نہیں، چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ رکن کے استلام پر مزاحمت کرتے حتی کہ زخمی ہو جاتے، البتہ حضرت ابن عباس ؓ اس مزاحمت کو مکروہ خیال کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ استلام کرتے وقت کسی کو تکلیف نہ دو، کسی دوسرے کے لیے اذیت کا باعث نہ بنو۔ (3) واضح رہے کہ حجراسود کو بوسہ دیتے وقت آواز پیدا نہ کی جائے، چنانچہ سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جب حجراسود کو بوسہ دو تو آواز بلند نہ کرو۔ (فتح الباري:600/3) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن یہ پتھر اس حالت میں آئے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن کے ذریعے سے یہ دیکھے گا اور زبان ہو گی جس کے ذریعے سے یہ بول کر ایسے شخص کے لیے گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کا بوسہ لیا ہو گا۔‘‘(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:2944)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے زبیر بن عربی نے بیان کیا کہ ایک شخص نے ابن عمر ؓ سے حجر اسود کے بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کو بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا اگر ہجوم ہوجائے اور میں عاجز ہو جاوں تو کیا کروں؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ اس اگروگر کو یمن میں جا کر رکھو میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اس کو بوسہ دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zubair bin 'Arabi (RA): A man asked Ibn 'Umar (RA) about the touching of the Black Stone. Ibn 'Umar (RA) said, "I saw Allah's Apostle (ﷺ) touching and kissing it." The questioner said, "But if there were a throng (much rush) round the Ka’bah and the people overpowered me, (what would I do?)" He replied angrily, "Stay in Yemen (as that man was from Yemen). I saw Allah's Apostle (ﷺ) touching and kissing it." ________