باب: جو شخص (حج یا عمرہ کی نیت سے) مکہ میں آئے تو اپنے گھر لوٹ جانے سے پہلے طواف کرے پھر دوگانہ طواف ادا کرے پھر صفا پہاڑ پر جائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Tawaf of the Ka'bah on reaching Makkah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1614.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ جب مکہ مکرمہ آئے تو سب سے پہلے وضو کر کے بیت اللہ کا طواف کیا، صرف طواف کرنے ہی سے آپ کا عمرہ مکمل نہیں ہوا تھا۔ پھر آپ کے بعد حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ نے بھی ایسا ہی حج کیا۔ پھر میں نے اپنے والد محترم حضرت زبیر ؓ کے ہمراہ حج کیا تو انھوں نے بھی سب سے پہلے طواف کیا۔ اس کے بعد میں نے مہاجرین و انصار کو دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ میری والدہ (حضرت اسماء ؓ ) نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اور ان کی ہمشیرہ حضرت عائشہ ؓ نے، حضرت زبیر بن عوام اور فلاں، فلاں نے عمرے کا احرام باندھا، انھوں نے جب حجر اسود کو ہاتھ لگایا (اور طواف مکمل کرنے کے بعد صفا و مروہ کی سعی کی) تو احرام کھول دیا۔
تشریح:
(1) حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ عمرہ کرتے وقت صرف بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد محرم، حلال ہو جاتا ہے، اسے صفا و مروہ کی سعی کی کوئی ضرورت نہیں۔ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ جو کوئی مکہ مکرمہ میں حج یا عمرے کی نیت سے آئے تو وہ پہلے بیت اللہ کا طواف کرے، پھر دو رکعت نفل پڑھے، اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرے اور حلق کرے۔ اگر اس نے عمرے کا احرام باندھا ہے تو احرام کھول دے اور اگر حج کا احرام باندھا ہے تو احرام نہ کھولے حتی کہ آٹھویں ذوالحجہ کو منیٰ جائے اور مناسک حج ادا کرے۔ (2) حضرت عروہ نے ایک آدمی کے مسئلہ دریافت کرنے پر یہ حدیث بیان کی ہے جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے۔ محمد بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: مجھے ایک عراقی نے کہا کہ تم حضرت عروہ بن زبیر سے سوال کرو کہ ایک آدمی صرف حج کا احرام باندھتا ہے، کیا جب وہ بیت اللہ کا طواف کرے تو احرام کھول دے؟ اگر وہ تجھے کہیں کہ اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں تو انہیں کہنا کہ ایک آدمی تو اس قسم کا فتویٰ دیتا ہے، چنانچہ اس نے جب حضرت عروہ سے اس کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں، وہ تو حج سے فراغت کے بعد ہی احرام کھولے گا۔ میں نے مذکورہ آدمی سے جب حضرت عروہ کا جواب بیان کیا تو اس نے کہا: ایک آدمی بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا تھا۔ حضرت اسماء اور حضرت زبیر ؓ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ وہ آدمی پھر حضرت عروہ کے پاس آیا اور اس نے مذکورہ شخص کی بات بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ سائل کون ہے؟ وہ خود میرے سامنے کیوں نہیں آتا؟ مجھے وہ عراقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ اس طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ رسول اللہ ﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ آئے تو سب سے پہلے وضو کر کے بیت اللہ کا طواف کیا ۔۔۔ پھر مکمل حدیث بیان کی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3001(1235)) (3) الغرض امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عمرہ صرف بیت اللہ کا طواف کرنے سے مکمل نہیں ہوتا جب تک صفا و مروہ کی سعی نہ کر لی جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1573
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1614
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1614
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1614
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ جب مکہ مکرمہ آئے تو سب سے پہلے وضو کر کے بیت اللہ کا طواف کیا، صرف طواف کرنے ہی سے آپ کا عمرہ مکمل نہیں ہوا تھا۔ پھر آپ کے بعد حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ نے بھی ایسا ہی حج کیا۔ پھر میں نے اپنے والد محترم حضرت زبیر ؓ کے ہمراہ حج کیا تو انھوں نے بھی سب سے پہلے طواف کیا۔ اس کے بعد میں نے مہاجرین و انصار کو دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ میری والدہ (حضرت اسماء ؓ ) نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اور ان کی ہمشیرہ حضرت عائشہ ؓ نے، حضرت زبیر بن عوام اور فلاں، فلاں نے عمرے کا احرام باندھا، انھوں نے جب حجر اسود کو ہاتھ لگایا (اور طواف مکمل کرنے کے بعد صفا و مروہ کی سعی کی) تو احرام کھول دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ عمرہ کرتے وقت صرف بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد محرم، حلال ہو جاتا ہے، اسے صفا و مروہ کی سعی کی کوئی ضرورت نہیں۔ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ جو کوئی مکہ مکرمہ میں حج یا عمرے کی نیت سے آئے تو وہ پہلے بیت اللہ کا طواف کرے، پھر دو رکعت نفل پڑھے، اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرے اور حلق کرے۔ اگر اس نے عمرے کا احرام باندھا ہے تو احرام کھول دے اور اگر حج کا احرام باندھا ہے تو احرام نہ کھولے حتی کہ آٹھویں ذوالحجہ کو منیٰ جائے اور مناسک حج ادا کرے۔ (2) حضرت عروہ نے ایک آدمی کے مسئلہ دریافت کرنے پر یہ حدیث بیان کی ہے جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے۔ محمد بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: مجھے ایک عراقی نے کہا کہ تم حضرت عروہ بن زبیر سے سوال کرو کہ ایک آدمی صرف حج کا احرام باندھتا ہے، کیا جب وہ بیت اللہ کا طواف کرے تو احرام کھول دے؟ اگر وہ تجھے کہیں کہ اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں تو انہیں کہنا کہ ایک آدمی تو اس قسم کا فتویٰ دیتا ہے، چنانچہ اس نے جب حضرت عروہ سے اس کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں، وہ تو حج سے فراغت کے بعد ہی احرام کھولے گا۔ میں نے مذکورہ آدمی سے جب حضرت عروہ کا جواب بیان کیا تو اس نے کہا: ایک آدمی بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا تھا۔ حضرت اسماء اور حضرت زبیر ؓ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ وہ آدمی پھر حضرت عروہ کے پاس آیا اور اس نے مذکورہ شخص کی بات بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ سائل کون ہے؟ وہ خود میرے سامنے کیوں نہیں آتا؟ مجھے وہ عراقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ اس طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ رسول اللہ ﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ آئے تو سب سے پہلے وضو کر کے بیت اللہ کا طواف کیا ۔۔۔ پھر مکمل حدیث بیان کی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3001(1235)) (3) الغرض امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عمرہ صرف بیت اللہ کا طواف کرنے سے مکمل نہیں ہوتا جب تک صفا و مروہ کی سعی نہ کر لی جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے عمروبن حارث نے محمد بن عبدالرحمن ابوالاسود سے خبردی، انہوں نے کہا کہ میں نے عروہ سے ( حج کا مسئلہ ) پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ عائشہ ؓ نے مجھے خبردی تھی کہ نبی کریم ﷺ جب ( مکہ ) تشریف لائے تو سب سے پہلا کام آپ نے یہ کیا کہ وضو کیا پھر طواف کیا اور طواف کرنے سے عمرہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد ابوبکر اور عمر ؓ نے بھی اسی طرح حج کیا۔ پھر عروہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد زبیر کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی سب سے پہلے طواف کیا۔ مہاجرین اور انصار کو بھی میں نے اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔ میری والدہ ( اسماء بنت ابی بکر ؓ ) نے بھی مجھے بتایا کہ انہو ں نے اپنی بہن ( عائشہ ؓ ) اور زبیر اور فلاں فلاں کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ جب ان لوگوں نے حجر اسود کو بوسہ دے لیا تو احرام کھول ڈالا تھا۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ عمرہ میں صرف طواف کرلینے سے آدمی کا عمرہ پورا نہیں ہوتا جب تک صفا اور مروہ میں سعی نہ کرے۔ گو ابن عباس ؓ سے اس کے خلاف منقول ہے۔ لیکن یہ قول جمہور علماء کے خلاف ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی اس کا رد کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں ابن عباس ؓ کا مذہب یہ ہے کہ جو کوئی حج مفرد کی نیت کرے وہ جب بیت اللہ میں داخل ہوتو طواف نہ کرے جب تک عرفات سے لوٹ کر نہ آئے۔ اگر طواف کرلے گا تو حلال ہوجائے گا۔ اور حج کا احرام ٹوٹ جائے گا۔ یہ قول ( اور صفا مروہ دوڑے اور سرمنڈایا ) بھی جمہور علماء کے خلاف ہے اور امام بخاری ؒ نے یہ باب لاکر اس قول کا رد کیا۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): 'Aisha (RA) said, "The first thing the Prophet (ﷺ) did on reaching Makkah, was the ablution and then he performed Tawaf of the Ka’bah and that was not 'Umra (alone), (but Hajj-al-Qiran). 'Urwa added: Later Abu Bakr (RA) and 'Umar did the same in their Hajj." And I performed the Hajj with my father Az-Zubair, and the first thing he did was Tawaf of the Ka’bah. Later I saw the Muhajirin (Emigrants) and the Ansar doing the same. My mother (Asma') told me that she, her sister ( 'Aisha (RA)), Az-Zubair and such and such persons assumed Ihram for 'Umra, and after they passed their hands over the Black Stone Corner (of the Ka’bah) they finished the Ihram. (i.e. After doing Tawaf of the Ka’bah and Sa'i between Safa-Marwa.