باب: بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا آدمی نہیں کر سکتا اور نہ کوئی مشرک حج کر سکتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: It is neither permissible for a naked person to perform Tawaf nor Hajj for a Mushrik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1622.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ حجۃالوداع سے قبل رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک سال امیر حج بنایا۔ انھوں نے مجھے دسویں ذوالحجہ چند آدمیوں کے ہمراہ لوگوں میں یہ منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص کعبہ کا طواف کرے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو سورہ براءت کا اعلان کرنے کے لیے ہمارے پیچھے روانہ کیا۔ وہ بھی ہمارے ساتھ اعلان کرتے تھے کہ آئندہ سال کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:369) چنانچہ آئندہ سال حجۃ الوداع کے موقع پر کوئی مشرک حج کرنے کے لیے نہیں آیا تھا۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث:3177) (2) دور جاہلیت میں قریش نے یہ بدعت ایجاد کی کہ باہر سے آنے والا شخص اپنے کپڑوں میں طواف نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی قریشی کے کپڑے لے کر طواف کرے (اس طرح وہ نذرانے وصول کرتے) اور کسی کے لیے ایسا ناممکن ہو تو وہ ننگا ہی طواف کر لے۔ اگر کوئی اپنے کپڑوں میں طواف کر لیتا تو اسے لامحالہ وہ کپڑے پھینکنے پڑتے۔ اسلام نے ان تمام بدعات کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی قریش کی بیت اللہ پر اجارہ داری بھی ختم ہو گئی۔ (3) اس سے ایک فقہی مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ طواف کرتے وقت اتنا لباس ضروری ہے جتنا نماز کے لیے ضروری ہے۔ (فتح الباري:610/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1580
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1622
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1622
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1622
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ حجۃالوداع سے قبل رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک سال امیر حج بنایا۔ انھوں نے مجھے دسویں ذوالحجہ چند آدمیوں کے ہمراہ لوگوں میں یہ منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص کعبہ کا طواف کرے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو سورہ براءت کا اعلان کرنے کے لیے ہمارے پیچھے روانہ کیا۔ وہ بھی ہمارے ساتھ اعلان کرتے تھے کہ آئندہ سال کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:369) چنانچہ آئندہ سال حجۃ الوداع کے موقع پر کوئی مشرک حج کرنے کے لیے نہیں آیا تھا۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث:3177) (2) دور جاہلیت میں قریش نے یہ بدعت ایجاد کی کہ باہر سے آنے والا شخص اپنے کپڑوں میں طواف نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی قریشی کے کپڑے لے کر طواف کرے (اس طرح وہ نذرانے وصول کرتے) اور کسی کے لیے ایسا ناممکن ہو تو وہ ننگا ہی طواف کر لے۔ اگر کوئی اپنے کپڑوں میں طواف کر لیتا تو اسے لامحالہ وہ کپڑے پھینکنے پڑتے۔ اسلام نے ان تمام بدعات کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی قریش کی بیت اللہ پر اجارہ داری بھی ختم ہو گئی۔ (3) اس سے ایک فقہی مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ طواف کرتے وقت اتنا لباس ضروری ہے جتنا نماز کے لیے ضروری ہے۔ (فتح الباري:610/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحٰى بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ سے حمید بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے خبردی کہ ابوبکر صدیق ؓ نے اس حج کے موقع پر جس کا امیر رسول اللہ ﷺ نے انہیں بنایا تھا۔ انہیں دسویں تاریخ کو ایک مجمع کے سامنے یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج بیت اللہ نہیں کرسکتا اور نہ کوئی شخص ننگا رہ کر طواف کرسکتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں عام اہل عرب یہ کہہ کر کہ ہم نے ان کپڑوں میں گناہ کئے ہیں ان کو اتار دیتے اور پھر یا تو قریش سے کپڑے مانگ کر طواف کرتے یا پھر ننگے ہی طواف کرتے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان کرایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): In the year prior to the last Hajj of the Prophet (ﷺ) when Allahs Apostle (ﷺ) made Abu Bakr (RA) the leader of the pilgrims, the latter (Abu Bakr) sent me in the company of a group of people to make a public announcement: 'No pagan is allowed to perform Hajj after this year, and no naked person is allowed to perform Tawaf of the Kaba.' (See Hadith No. 365 Vol. 1) ________