باب: اس شخص کے بارے میں جس نے طواف کی دو رکعتیں مسجد الحرام سے باہر پڑھیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Two Rak'a prayer of Tawaf outside the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عمر ؓنے بھی حرم سے باہر پڑھی تھیں۔
1626.
حضرت اُم سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی بیماری کے متعلق شکایت کی۔ ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بایں الفاظ ہے، نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت اُم سلمہ ؓ نے کہا کہ جب آپ مکہ مکرمہ میں تشریف فرما تھے اور وہاں سے روانگی کا ارادہ فرمایا، (میں) اُم سلمہ ؓ بھی روانہ ہونا چاہتی تھی، لیکن بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’جب نماز فجر کھڑی ہو جائے تو تم اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کر لو جبکہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں۔‘‘ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور حرم سے باہر نکلنے تک طواف کی نماز نہیں پڑھی۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی حدیث کے دونوں طرق ایک ہی سیاق سے بیان کیے ہیں لیکن ان دونوں روایات کے الفاظ مختلف ہیں، چنانچہ پہلی روایت کے الفاظ حدیث: 1618 میں گزر چکے ہیں۔ (2) اس روایت سے معلوم ہوا کہ طواف کی دو رکعتیں مسجد سے باہر بھی جائز ہیں کیونکہ اگر ان کا مسجد حرام میں ادا کرنا لازم اور شرط ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت ام سلمہ ؓ کے عمل کو برقرار نہ رکھتے۔ (3) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کی نماز طواف رہ جائے تو وہ حرم کے اندر اور باہر جہاں چاہے اس کی قضا دے سکتا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی حدود حرم سے نکل کر اپنے وطن پہنچ گیا ہو اور نماز طواف نہ پڑھ سکا ہو تو اس پر دم واجب ہو گا۔ لیکن راجح موقف یہ ہے کہ ان کی حیثیت فرض نماز سے زیادہ نہیں۔ جب فرض نماز رہ جائے تو جہاں یاد آئے وہاں اسے پڑھ سکتا ہے تو صلاۃ طواف کے لیے بھی یہ قاعدہ ہو گا کہ جہاں یاد آئے اسے ادا کرے۔ (فتح الباري:615/3) البتہ انہیں مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1583
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1626
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1626
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1626
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا (1/339) میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز فجر کے بعد طواف کیا تو سوار ہوئے اور وادی ذی طویٰ میں طواف کی دو رکعتیں ادا کیں۔ امالی ابن مندہ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز کے بعد طواف کے سات چکر لگائے، پھر مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے، جب وادی ذی طویٰ آئے تو سورج طلوع ہو چکا تھا، وہاں آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ (فتح الباری:3/618)
حضرت اُم سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی بیماری کے متعلق شکایت کی۔ ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بایں الفاظ ہے، نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت اُم سلمہ ؓ نے کہا کہ جب آپ مکہ مکرمہ میں تشریف فرما تھے اور وہاں سے روانگی کا ارادہ فرمایا، (میں) اُم سلمہ ؓ بھی روانہ ہونا چاہتی تھی، لیکن بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’جب نماز فجر کھڑی ہو جائے تو تم اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کر لو جبکہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں۔‘‘ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور حرم سے باہر نکلنے تک طواف کی نماز نہیں پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی حدیث کے دونوں طرق ایک ہی سیاق سے بیان کیے ہیں لیکن ان دونوں روایات کے الفاظ مختلف ہیں، چنانچہ پہلی روایت کے الفاظ حدیث: 1618 میں گزر چکے ہیں۔ (2) اس روایت سے معلوم ہوا کہ طواف کی دو رکعتیں مسجد سے باہر بھی جائز ہیں کیونکہ اگر ان کا مسجد حرام میں ادا کرنا لازم اور شرط ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت ام سلمہ ؓ کے عمل کو برقرار نہ رکھتے۔ (3) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کی نماز طواف رہ جائے تو وہ حرم کے اندر اور باہر جہاں چاہے اس کی قضا دے سکتا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی حدود حرم سے نکل کر اپنے وطن پہنچ گیا ہو اور نماز طواف نہ پڑھ سکا ہو تو اس پر دم واجب ہو گا۔ لیکن راجح موقف یہ ہے کہ ان کی حیثیت فرض نماز سے زیادہ نہیں۔ جب فرض نماز رہ جائے تو جہاں یاد آئے وہاں اسے پڑھ سکتا ہے تو صلاۃ طواف کے لیے بھی یہ قاعدہ ہو گا کہ جہاں یاد آئے اسے ادا کرے۔ (فتح الباري:615/3) البتہ انہیں مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمرؓ نے طواف کی دورکعتیں حرم کے باہر جاکر ادا کیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؓ نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمن نے، انہیں عروہ نے، انہیں زینب نے اور انہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو مروان یحییٰ ابن ابی زکریا غسانی نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں تھے اور وہاں سے چلنے کا ارادہ ہوا توام سلمہ ؓ نے کعبہ کا طواف نہیں کیا اور وہ بھی روانگی کا ارادہ رکھتی تھیں آپ نے ان سے فرمایا کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہو اور لوگ نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائیں تو تم اپنی اونٹنی پر طواف کرلینا۔ چنانچہ ام سلمہ ؓ نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے باہر نکلنے تک طواف کی نماز نہیں پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA): (the wife of the Prophet) I informed Allah's Apostle (ﷺ) (about my illness). (Through other sub-narrators, Um Salama narrated that when Allah's Apostle (ﷺ) was at Makkah and had just decided to leave (Makkah) while she had not yet done Tawaf of the Kaba (and after listening to her). The Prophet (ﷺ) said, "When the morning prayer is established, perform the Tawaf on your camel while the people are in prayer." So she did the same and did not offer the two Rakat of Tawaf until she came out of the Mosque. ________