Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Tawaf after the morning and 'Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورج نکلنے سے پہلے عبداللہ بن عمرؓ طواف کی دو رکعت پڑھ لیتے تھے۔ اور عمرؓ نے صبح کی نماز کے بعد طواف کیا پھر سوار ہوئے اور (طواف کی) دو رکعتیں ذی طویٰ میں پڑھیں۔
1631.
حضرت عبد العزیز ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کو دیکھا کہ وہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔ اور حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی ﷺ جب حضرت عائشہ ؓ کے گھر داخل ہوتے تو (عصر کے بعد ) دورکعت ضرور پڑھتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؓ نے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث و آثار سے نماز عصر اور نماز فجر کے بعد طواف اور صلاۃ طواف کا حکم بیان کیا ہے۔ اس عنوان کے تحت مختلف آثار پیش کیے ہیں۔ امام ؒ کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اس سلسلے میں وسعت ہے، گویا انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے مروی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے بنو عبد مناف! اگر تمہیں اختیارات ملیں تو رات ہو یا دن کسی کو بیت اللہ کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے مت روکنا۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:226/4) اس حدیث پر امام ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’مکہ مکرمہ میں فجر اور عصر کے بعد طواف اور نماز جائز ہے۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا: جن روایات میں نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت ہے اس سے مراد ہر قسم کی نماز نہیں بلکہ یہ ممانعت کچھ نمازوں کے متعلق ہے۔ (2) امام بخاری نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان کا تعلق صلاۃ طواف سے ہے جبکہ عنوان طواف کے متعلق ہے، چونکہ طواف بھی نماز کی طرح ہے یا طواف کے بعد نمازِ طواف ضروری ہے، اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حدیث عائشہ میں جن لوگوں کے متعلق آپ کا انکار ذکر ہوا ہے وہ طلوع شمس کے فورا بعد نماز پڑھنے کے خیال سے انتظار کرتے رہتے، اس لیے آپ نے ان کے اس عمل پر گرفت فرمائی۔ اسی طرح امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ نماز فجر کے بعد طواف کرتے اور نماز پڑھتے تھے۔ ہمارے نزدیک اوقات مکروہ میں عام نوافل پڑھنے کی ممانعت ہے لیکن جو نوافل کسی سبب کی وجہ سے پڑھے جائیں، مثلا تحیۃ المسجد، صلاۃ طواف اور وضو کی نماز وغیرہ تو اوقات مکروہ میں ان کی ادائیگی جائز ہے، اسی طرح فرض کی قضا بھی اوقات مکروہہ میں دی جا سکتی ہے۔ بہرحال امام بخاری کے ہاں بھی اس سلسلے میں وسعت ہے کہ صلاۃ طواف کو اوقات مکروہ میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ طواف کے فورا بعد مقام ابراہیم کے پاس ہی یہ دو رکعتیں ادا کی جائیں بلکہ طواف کے بعد حرم سے باہر بھی انہیں پڑھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1587.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1631
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1631
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1631
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر سعید بن منصور نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے کہ انہوں نے نماز فجر کے بعد طواف کیا اور سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ نماز پڑھنے کی کراہت عین طلوع اور عین غروب کے وقت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر امام مالک نے اپنی مؤطا (1/339) میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک طواف کی نماز ادا کرنے میں وسعت ہے۔ اوقات مکروہ میں بھی اسے ادا کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔
سورج نکلنے سے پہلے عبداللہ بن عمرؓ طواف کی دو رکعت پڑھ لیتے تھے۔ اور عمرؓ نے صبح کی نماز کے بعد طواف کیا پھر سوار ہوئے اور (طواف کی) دو رکعتیں ذی طویٰ میں پڑھیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد العزیز ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کو دیکھا کہ وہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔ اور حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی ﷺ جب حضرت عائشہ ؓ کے گھر داخل ہوتے تو (عصر کے بعد ) دورکعت ضرور پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؓ نے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث و آثار سے نماز عصر اور نماز فجر کے بعد طواف اور صلاۃ طواف کا حکم بیان کیا ہے۔ اس عنوان کے تحت مختلف آثار پیش کیے ہیں۔ امام ؒ کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اس سلسلے میں وسعت ہے، گویا انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے مروی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے بنو عبد مناف! اگر تمہیں اختیارات ملیں تو رات ہو یا دن کسی کو بیت اللہ کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے مت روکنا۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:226/4) اس حدیث پر امام ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’مکہ مکرمہ میں فجر اور عصر کے بعد طواف اور نماز جائز ہے۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا: جن روایات میں نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت ہے اس سے مراد ہر قسم کی نماز نہیں بلکہ یہ ممانعت کچھ نمازوں کے متعلق ہے۔ (2) امام بخاری نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان کا تعلق صلاۃ طواف سے ہے جبکہ عنوان طواف کے متعلق ہے، چونکہ طواف بھی نماز کی طرح ہے یا طواف کے بعد نمازِ طواف ضروری ہے، اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حدیث عائشہ میں جن لوگوں کے متعلق آپ کا انکار ذکر ہوا ہے وہ طلوع شمس کے فورا بعد نماز پڑھنے کے خیال سے انتظار کرتے رہتے، اس لیے آپ نے ان کے اس عمل پر گرفت فرمائی۔ اسی طرح امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ نماز فجر کے بعد طواف کرتے اور نماز پڑھتے تھے۔ ہمارے نزدیک اوقات مکروہ میں عام نوافل پڑھنے کی ممانعت ہے لیکن جو نوافل کسی سبب کی وجہ سے پڑھے جائیں، مثلا تحیۃ المسجد، صلاۃ طواف اور وضو کی نماز وغیرہ تو اوقات مکروہ میں ان کی ادائیگی جائز ہے، اسی طرح فرض کی قضا بھی اوقات مکروہہ میں دی جا سکتی ہے۔ بہرحال امام بخاری کے ہاں بھی اس سلسلے میں وسعت ہے کہ صلاۃ طواف کو اوقات مکروہ میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ طواف کے فورا بعد مقام ابراہیم کے پاس ہی یہ دو رکعتیں ادا کی جائیں بلکہ طواف کے بعد حرم سے باہر بھی انہیں پڑھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمرؓطلوع شمس سے پہلے طواف کی دورکعت پڑھا کرتے تھے۔ سید نا عمر فاروق ؓ نے نماز صبح کے بعد طواف کیا، پھر سوار ہو کر باہر چلے گئے اور مقام ذی طویٰ میں دو رکعت ادا کیں
حدیث ترجمہ:
عبدالعزیز نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر ؓ کو عصر کے بعد بھی دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ عائشہ ؓ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی ان کے گھر آتے ( عصر کے بعد ) تو یہ دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdul Aziz (RA) added, "I saw Abdullah bin Az-Zubair offering a two Rakat prayer after the Asr prayer." He informed me that Aisha (RA) told him that the Prophet (ﷺ) used to offer those two Rakat whenever he entered her house."