Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: A sick person may perform Tawaf while riding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1633.
اُم المومنین حضرت اُم سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ میں بیمار ہوں تو آپ نے فرمایا: ’’سوار ہو کر لوگوں کی پچھلی جانب سے بیت اللہ کا طواف کر لو۔ ‘‘ چنانچہ میں نے (اس طرح) اپنا طواف مکمل کیا جبکہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کی ایک جانب کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ بحالت نماز سورہ طور کی تلاوت کر رہے تھے۔
تشریح:
(1) صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے جب طواف کیا تو رسول اللہ ﷺ لوگوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1626) رسول اللہ ﷺ نے آپ کو لوگوں کی پچھلی طرف سے طواف کرنے کا حکم دیا تاکہ صف بندی میں خلل نہ آئے، نیز اس میں پردہ داری بھی زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی مقصد تھا کہ لوگوں سے اختلاط نہ ہو، اس لیے طواف کرتے وقت عورتوں کو مردوں سے علیحدہ رہنا چاہیے۔ (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی عذر کی بنا پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا جا سکتا ہے، البتہ فقہاء نے عذر کے بغیر بھی سوار ہو کر طواف کرنے کو جائز قرار دیا ہے اگرچہ پیدل طواف کرنا زیادہ بہتر اور فضیلت کا باعث ہے۔ ہمارے نزدیک طواف کے لیے سواری کا استعمال اس وقت تھا جب مسجد حرام کی چار دیواری نہ تھی۔ اب جبکہ چار دیواری ہو چکی ہے تو ان حالات میں سواری مسجد حرام میں داخل کرنا عقل و نقل کے خلاف ہے کیونکہ ایسا کرنے سے مسجد کا تقدس بھی برقرار نہیں رہتا اور اس جانور کے گوبر اور لید وغیرہ سے گندگی پھیلنے کا بھی اندیشہ ہے۔ (فتح الباري:619/3)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1589
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1633
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1633
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1633
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
اُم المومنین حضرت اُم سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ میں بیمار ہوں تو آپ نے فرمایا: ’’سوار ہو کر لوگوں کی پچھلی جانب سے بیت اللہ کا طواف کر لو۔ ‘‘ چنانچہ میں نے (اس طرح) اپنا طواف مکمل کیا جبکہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کی ایک جانب کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ بحالت نماز سورہ طور کی تلاوت کر رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے جب طواف کیا تو رسول اللہ ﷺ لوگوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1626) رسول اللہ ﷺ نے آپ کو لوگوں کی پچھلی طرف سے طواف کرنے کا حکم دیا تاکہ صف بندی میں خلل نہ آئے، نیز اس میں پردہ داری بھی زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی مقصد تھا کہ لوگوں سے اختلاط نہ ہو، اس لیے طواف کرتے وقت عورتوں کو مردوں سے علیحدہ رہنا چاہیے۔ (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی عذر کی بنا پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا جا سکتا ہے، البتہ فقہاء نے عذر کے بغیر بھی سوار ہو کر طواف کرنے کو جائز قرار دیا ہے اگرچہ پیدل طواف کرنا زیادہ بہتر اور فضیلت کا باعث ہے۔ ہمارے نزدیک طواف کے لیے سواری کا استعمال اس وقت تھا جب مسجد حرام کی چار دیواری نہ تھی۔ اب جبکہ چار دیواری ہو چکی ہے تو ان حالات میں سواری مسجد حرام میں داخل کرنا عقل و نقل کے خلاف ہے کیونکہ ایسا کرنے سے مسجد کا تقدس بھی برقرار نہیں رہتا اور اس جانور کے گوبر اور لید وغیرہ سے گندگی پھیلنے کا بھی اندیشہ ہے۔ (فتح الباري:619/3)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمن بن نوفل نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، ان سے زینب بنت ام سلمہ نے، ان سے ام سلمہ ؓ نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوگئی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر لوگوں کے پیچھے سے سوار ہوکر طواف کرلے۔ چنانچہ میں نے جب طواف کیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے بازو میں ( نماز کے اندر ) ﴿وَالطُّورِ (1) وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ﴾ کی قراءت کررہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA): I informed Allah's Apostle (ﷺ) that I was sick. He said, "Perform Tawaf (of the Kaba) while riding behind the people." So, I performed the Tawaf while Allah's Apostle (ﷺ) was offering the prayer beside the Kaba and was reciting Surat-at-Tur.