Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: What is said about Zamzam (water))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1636.
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے گھر کی چھت کھول دی گئی جبکہ میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ حضرت جبریل ؑ نازل ہوئے تو انھوں نے میرا سینہ چاک کیا، اسے آپ نے زمزم سے دھویا۔ پھر سونے کا ایک طشت لے کر آئے جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل کر سینہ بند کر دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان دنیا کی طرف اوپر چڑھ گئے، حضرت جبریل ؑ نے آسمان دنیا کے داروغے سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے پوچھا: کون ہے؟فرمایا: میں جبریل ؑ ہوں۔ ‘‘
تشریح:
(1) زمزم وہ سدا بہار چشمہ ہے جو بیت اللہ سے کچھ فاصلے پر مسجد حرام میں حضرت جبرئیل ؑ کے پَر مارنے سے پھوٹ نکلا تھا۔ اس عظیم الشان قدیم کنویں کی تاریخ حضرت اسماعیل ؑ کی شیر خواری سے شروع ہوتی ہے۔ یہ مبارک چشمہ پیاس کی بے تابی میں آپ کے زمین پر ایڑیاں رگڑنے سے فوارے کی طرح اس بے آب و گیاہ اور سنگلاخ وادی میں ابلا تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ نے جب اپنے لخت جگر کے زیر قدم یہ نعمت دیکھی تو باغ باغ ہو گئیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ماء زمزم کی فضیلت ثابت کی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کا سینہ مبارک اسی پانی سے دھویا گیا تھا۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث ماء زمزم کی فضیلت کے متعلق مروی ہیں مگر امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق مذکورہ حدیث تھی جسے انہوں نے بیان کر دیا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آب زمزم کو ایک بہترین اور بابرکت مشروب کے علاوہ اسے خوراک بھی قرار دیا گیا ہے اور بیماروں کے لیے بطور دوا بھی تجویز کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6359 (2473)، و صحیح الجامع للألباني:230/1) نیز حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے اللہ اسے پورا کرتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:3062) (3) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کا نام زمزم اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ کثیر مقدار میں ہے اور اس کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی اسے زمزم کہا جاتا ہے۔ (فتح الباري:623/3) (4) واضح رہے کہ چشمہ زمزم بیت اللہ سے چالیس ہاتھ کے فاصلے پر ہے۔ (عمدةالقاري:217/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1592
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1636
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1636
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1636
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے گھر کی چھت کھول دی گئی جبکہ میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ حضرت جبریل ؑ نازل ہوئے تو انھوں نے میرا سینہ چاک کیا، اسے آپ نے زمزم سے دھویا۔ پھر سونے کا ایک طشت لے کر آئے جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل کر سینہ بند کر دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان دنیا کی طرف اوپر چڑھ گئے، حضرت جبریل ؑ نے آسمان دنیا کے داروغے سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے پوچھا: کون ہے؟فرمایا: میں جبریل ؑ ہوں۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) زمزم وہ سدا بہار چشمہ ہے جو بیت اللہ سے کچھ فاصلے پر مسجد حرام میں حضرت جبرئیل ؑ کے پَر مارنے سے پھوٹ نکلا تھا۔ اس عظیم الشان قدیم کنویں کی تاریخ حضرت اسماعیل ؑ کی شیر خواری سے شروع ہوتی ہے۔ یہ مبارک چشمہ پیاس کی بے تابی میں آپ کے زمین پر ایڑیاں رگڑنے سے فوارے کی طرح اس بے آب و گیاہ اور سنگلاخ وادی میں ابلا تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ نے جب اپنے لخت جگر کے زیر قدم یہ نعمت دیکھی تو باغ باغ ہو گئیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ماء زمزم کی فضیلت ثابت کی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کا سینہ مبارک اسی پانی سے دھویا گیا تھا۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث ماء زمزم کی فضیلت کے متعلق مروی ہیں مگر امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق مذکورہ حدیث تھی جسے انہوں نے بیان کر دیا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آب زمزم کو ایک بہترین اور بابرکت مشروب کے علاوہ اسے خوراک بھی قرار دیا گیا ہے اور بیماروں کے لیے بطور دوا بھی تجویز کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6359 (2473)، و صحیح الجامع للألباني:230/1) نیز حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے اللہ اسے پورا کرتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:3062) (3) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کا نام زمزم اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ کثیر مقدار میں ہے اور اس کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی اسے زمزم کہا جاتا ہے۔ (فتح الباري:623/3) (4) واضح رہے کہ چشمہ زمزم بیت اللہ سے چالیس ہاتھ کے فاصلے پر ہے۔ (عمدةالقاري:217/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور عبدان نے کہا کہ مجھ کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس نے خبردی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ ابوذر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو میری ( گھر کی ) چھت کھلی اور جبرائیل ؑ نازل ہوئے۔ انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اسے انہوں نے میرے سینے میں ڈال دیا اور پھر سینہ بند کر دیا۔ اب وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر آسمان دنیا کی طرف لے چلے۔ آسمان دنیا کے داروغہ سے جبریل نے کہا دروازہ کھولو۔ انہوں نے دریافت کیا کون صاحب ہیں؟ کہا جبریل !
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) said, "The roof of my house was made open while I was at Makkah (on the night of Mi'raj) and Jibril descended. He opened up my chest and washed it with the water of Zamzam. The he brought the golden tray full of Wisdom and Belief and poured it in my chest and then closed it. The he took hold of my hand and ascended to the nearest heaven. Jibril told the gatekeeper of the nearest heaven to open the gate. The gatekeeper asked, "Who is it?" Jibril replied, "I am Jibril." (See Hadith No. 349 Vol.1)