Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Tawaf of Al-Qarin)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1640.
حضرت نافع ہی سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ سے جنگ کا ارادہ رکھتا تھا، اس سال حضرت ابن عمر ؓ نے حج کا ارادہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں میں جنگ وقتال ہونے والا ہے، ہمیں خطرہ ہے کہ لوگ آپ کو روک دیں گے (لہٰذا آپ مکہ مکرمہ نہ جائیں ) اس پر انھوں نے فرمایا: ’’تمھارے لیے رسول اللہ( ﷺ )کی حیات طیبہ میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اس وقت میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کو واجب کرلیا ہے۔ پھر وہ روانہ ہوئے۔ جب مقام بیداء پہنچے تو فرمایا: اور عمرے کے ساتھ حج بھی واجب کر لیاہے۔ اس کے بعد ہدی بھیج دی جو قدید سے خریدی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ نہ کیا، نہ تو نحر کیا اور نہ کوئی ایسا کام ہی کیا جو احرام کے باعث حرام تھا، نہ سر منڈوایا اور نہ بال ہی چھوٹے کرائے، یہاں تک کہ قربانی کے دن قربانی ذبح کی اور سر منڈوایا۔ آپ کا یہ موقف تھا کہ آپ نے ایک طواف سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف کرلیاہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
تشریح:
(1) آخری عبارت کا مطلب یہ نہیں کہ حجراسود کے بوسے کے بعد احرام کھول دیتے تھے بلکہ طواف کرنے کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے، پھر سر منڈوا کر احرام کھولتے تھے۔ حضرت عروہ سے مروی یہ حدیث دراصل ایک سوال کا جواب ہے کہ محمد بن عبدالرحمٰن سے ایک عراقی نے کہا کہ تم حضرت عروہ بن زبیر سے دریافت کرو: اگر ایک شخص حج کا احرام باندھے تو کیا بیت اللہ کا طواف کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ اگر وہ کہیں کہ نہیں تو ایک شخص (عبداللہ بن عباسؓ ) کے حوالے سے کہنا کہ ان کے نزدیک تو حلال ہو جاتا ہے، چنانچہ محمد بن عبدالرحمٰن نے جب سوال کیا تو حضرت عروہ نے فرمایا: جب کوئی حج کا احرام باندھے تو جب تک وہ حج سے فارغ نہ ہو جائے حلال نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد یہ حدیث بیان کی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3001(1235)) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ طواف کرتے وقت انسان کو باوضو ہونا چاہیے۔ لیکن اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فعل ذکر ہوا ہے جو وجوب پر دلالت نہیں کرتا، اس بنا پر طواف کے لیے وضو کو واجب یا شرط قرار دینا صحیح نہیں۔ اس کا حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کو آپ کے فرمان کی روشنی میں دیکھا جائے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘(سنن الکبریٰ للبیھقي:125/5) اس امر کے تحت جتنے بھی افعال ہوں گے وہ سب واجب ہوں گے۔ (فتح الباري: 627/3) اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ہمارے لیے نمونہ بنا کر مبعوث کیا ہے، اس لیے آپ کے زندگی بھر کے تمام کام ہمارے لیے نمونہ ہیں، اس کی تقسیم کہ فلاں کام ضروری ہے اور فلاں غیر ضروری یہ سب فقہاء کی باتیں ہیں، جنہیں بعد میں ایجاد کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1596
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1640
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1640
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1640
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ حج کی تین اقسام ہیں: (1) حج افراد (2) حج قران (3) حج تمتع۔ حض قران میں حج اور عمرہ دونوں کی نیت کی جاتی ہے۔ مکہ پہنچنے کے بعد عمرہ کر کے احرام نہیں کھولا جاتا بلکہ حج مکمل کر کے احرام اتارا جاتا ہے۔ حج قران کرنے والے پر قربانی واجب ہے۔ اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو دس دن کے روزے رکھے جائیں۔ حج قران کی نیت ہو تو قربانی ساتھ لے جانا مسنون ہے۔ اس میں تین طواف ہوتے ہیں: طواف قدوم، طواف افاضہ اور طواف وداع اور دو سعی، یعنی عمرہ اور حج کی الگ الگ سعی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی عمرے کا طواف اور سعی کیے بغیر سیدھا منیٰ چلا جائے اور ایک طواف اور ایک سعی کر کے احرام کھول دے تو بھی جائز ہے، البتہ احناف کا کہنا ہے کہ اس میں دو طواف اور دو سعی کرنی ضروری ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں اسی اختلاف کے متعلق اپنا رجحان بیان کیا ہے اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ حج قران کرنے والے کے لیے ایک طواف اور ایک سعی بھی کافی ہے۔
حضرت نافع ہی سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ سے جنگ کا ارادہ رکھتا تھا، اس سال حضرت ابن عمر ؓ نے حج کا ارادہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں میں جنگ وقتال ہونے والا ہے، ہمیں خطرہ ہے کہ لوگ آپ کو روک دیں گے (لہٰذا آپ مکہ مکرمہ نہ جائیں ) اس پر انھوں نے فرمایا: ’’تمھارے لیے رسول اللہ( ﷺ )کی حیات طیبہ میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اس وقت میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کو واجب کرلیا ہے۔ پھر وہ روانہ ہوئے۔ جب مقام بیداء پہنچے تو فرمایا: اور عمرے کے ساتھ حج بھی واجب کر لیاہے۔ اس کے بعد ہدی بھیج دی جو قدید سے خریدی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ نہ کیا، نہ تو نحر کیا اور نہ کوئی ایسا کام ہی کیا جو احرام کے باعث حرام تھا، نہ سر منڈوایا اور نہ بال ہی چھوٹے کرائے، یہاں تک کہ قربانی کے دن قربانی ذبح کی اور سر منڈوایا۔ آپ کا یہ موقف تھا کہ آپ نے ایک طواف سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف کرلیاہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) آخری عبارت کا مطلب یہ نہیں کہ حجراسود کے بوسے کے بعد احرام کھول دیتے تھے بلکہ طواف کرنے کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے، پھر سر منڈوا کر احرام کھولتے تھے۔ حضرت عروہ سے مروی یہ حدیث دراصل ایک سوال کا جواب ہے کہ محمد بن عبدالرحمٰن سے ایک عراقی نے کہا کہ تم حضرت عروہ بن زبیر سے دریافت کرو: اگر ایک شخص حج کا احرام باندھے تو کیا بیت اللہ کا طواف کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ اگر وہ کہیں کہ نہیں تو ایک شخص (عبداللہ بن عباسؓ ) کے حوالے سے کہنا کہ ان کے نزدیک تو حلال ہو جاتا ہے، چنانچہ محمد بن عبدالرحمٰن نے جب سوال کیا تو حضرت عروہ نے فرمایا: جب کوئی حج کا احرام باندھے تو جب تک وہ حج سے فارغ نہ ہو جائے حلال نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد یہ حدیث بیان کی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3001(1235)) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ طواف کرتے وقت انسان کو باوضو ہونا چاہیے۔ لیکن اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فعل ذکر ہوا ہے جو وجوب پر دلالت نہیں کرتا، اس بنا پر طواف کے لیے وضو کو واجب یا شرط قرار دینا صحیح نہیں۔ اس کا حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کو آپ کے فرمان کی روشنی میں دیکھا جائے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘(سنن الکبریٰ للبیھقي:125/5) اس امر کے تحت جتنے بھی افعال ہوں گے وہ سب واجب ہوں گے۔ (فتح الباري: 627/3) اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ہمارے لیے نمونہ بنا کر مبعوث کیا ہے، اس لیے آپ کے زندگی بھر کے تمام کام ہمارے لیے نمونہ ہیں، اس کی تقسیم کہ فلاں کام ضروری ہے اور فلاں غیر ضروری یہ سب فقہاء کی باتیں ہیں، جنہیں بعد میں ایجاد کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا کہ جس سال حجاج عبداللہ بن زبیر ؓ کے مقابلے میں لڑنے آیا تھا۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے جب اس سال حج کا ارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ مسلمانوں میں باہم جنگ ہونے والی ہے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ آپ کو حج سے روک دیا جائے۔ آپ نے فرمایا: تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ایسے وقت میں میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کرلیاہے۔ پھر آپ چلے اور جب بیداء کے میدان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی طرح کے ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کر لیا ہے۔ آپ نے ایک قربانی بھی ساتھ لے لی جو مقام قدید سے خریدی تھی۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ دسویں تاریخ سے پہلے نہ آپ نے قربانی کی نہ کسی ایسی چیز کو اپنے لیے جائز کیا جس سے ( احرام کی وجہ سے ) آپ رک گئے تھے۔ نہ سر منڈوایا نہ بال ترشوائے۔ آپ کا یہی خیال تھا کہ آپ نے ایک طواف سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف ادا کرلیا ہے۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
پہلے عبداللہ بن عمر ؓ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ پھر انہوں نے خیال کیا کہ صرف عمرہ کرنے سے حج اور عمرہ دونوں یعنی قران کرنا بہتر ہے تو حج کی بھی نیت باندھ لی اور پکار کرلوگوں سے اس لیے کہہ دیا کہ اور لوگ بھی ان کی پیروی کریں۔ بیداء مکہ اور مدینہ کے درمیان ذوالحلیفہ سے آگے ایک مقام ہے۔ قدید بھی جحفہ کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi': Ibn 'Umar (RA) intended to perform Hajj in the year when Al-Hajjaj attacked Ibn Az-Zubair. Somebody said to Ibn 'Umar (RA), "There is a danger of an impending war between them." Ibn 'Umar (RA) said, "Verily, in Allah's Apostle (ﷺ) you have a good example. (And if it happened as you say) then I would do the same as Allah's Apostle (ﷺ) had done. I make you witness that I have decided to perform 'Umra." Then he set out and when he reached Al-Baida', he said, "The ceremonies of both Hajj and 'Umra are similar. I make you witness that I have made Hajj compulsory for me along with 'Umra." He drove (to Makkah) a Hadi which he had bought from (a place called) Qudaid and did not do more than that. He did not slaughter the Hadi or finish his Ihram, or shave or cut short his hair till the day of slaughtering the sacrifices (10th Dhul-Hijja). Then he slaughtered his Hadi and shaved his head and considered the first Tawaf (of Safa and Marwa) as sufficient for Hajj and 'Umra. Ibn 'Umar (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) did the same." ________