باب: حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجا لائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: A menstruating woman can perform all the ceremonies of Hajj except Tawaf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اگر کسی نے صفا اور مروہ کی سعی بغیر وضو کر لی تو کیا حکم ہے؟
1651.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حج کا احرام باندھا لیکن نبی کریم ﷺ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔ حضرت على رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے تشریف لائے تو ان کے پاس قربانی موجود تھی۔ انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کے احرام جیسی نیت کی، چنانچہ جب نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ احرام حج کو عمرے سے بدل لیں۔ پھر بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد سروں کے بال چھوٹے کرا لیں اور احرام کھول دیں مگر جس کے پاس قربانی کا جانور ہے وہ احرام نہ کھولے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپس میں گفتگو کی کہ ہم منیٰ کی طرف اس حالت میں جائیں گے کہ ہمارے اعضائے تناسل منی ٹپکار ہے ہوں گے؟ جب نبی کریم ﷺ کو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس بات کا مجھے اب علم ہوا ہے اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوران حج میں حیض آ گیا۔ اس لیے انھوں نے بیت اللہ کے طواف کے علاوہ دیگر تمام ارکان حج ادا کیے، پھر جب وہ پاک ہوگئیں تو انھوں نے طواف کیا۔ اس دوران میں انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ سب لوگ حج وعمرہ دونوں مکمل کر کے واپس جا رہے ہیں جبکہ میں صرف حج مکمل کر کے واپس جاؤں گی۔ چنانچہ آپﷺ نے عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ تنعیم جائیں (اور وہاں سے عمرے کا احرام باندھیں) اس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حج کےبعد عمرہ ادا کیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث کے آخر میں ہے: ’’پھر ایسا ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کو حیض آ گیا۔ انہوں نے بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام مناسک حج پورے کیے اور مخصوص ایام سے فراغت کے بعد (غسل کر کے) بیت اللہ کا طواف کیا۔‘‘ (2) حدیث کی عنوان سے مناسبت یوں واضح ہوتی ہے کہ جنبی اور بے وضو انسان بھی حائضہ کے حکم میں ہے، یعنی یہ حضرات بھی طہارت اور وضو کے بغیر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتے جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے، البتہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ شعبہ نے حضرت حکم، حماد، منصور اور سلیمان سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا جو وضو کے بغیر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے تو انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ لیکن احادیث کی روشنی میں ان حضرات کا یہ موقف محل نظر ہے۔ (فتح الباري:638/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1605
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1651
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1651
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1651
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس عنوان کے دو حصے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے حصے کو پورے جزم و وثوق سے بیان کیا ہے کیونکہ حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے جبکہ دوسرے حصے کے متعلق استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے کیونکہ اس کا واضح ثبوت نہیں بلکہ استنباط کا سہارا لیا ہے۔ صفا و مروہ کی وضو کے بغیر سعی کرنا، اس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ ان شاءاللہ
اور اگر کسی نے صفا اور مروہ کی سعی بغیر وضو کر لی تو کیا حکم ہے؟
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حج کا احرام باندھا لیکن نبی کریم ﷺ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔ حضرت على رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے تشریف لائے تو ان کے پاس قربانی موجود تھی۔ انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کے احرام جیسی نیت کی، چنانچہ جب نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ احرام حج کو عمرے سے بدل لیں۔ پھر بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد سروں کے بال چھوٹے کرا لیں اور احرام کھول دیں مگر جس کے پاس قربانی کا جانور ہے وہ احرام نہ کھولے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپس میں گفتگو کی کہ ہم منیٰ کی طرف اس حالت میں جائیں گے کہ ہمارے اعضائے تناسل منی ٹپکار ہے ہوں گے؟ جب نبی کریم ﷺ کو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس بات کا مجھے اب علم ہوا ہے اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوران حج میں حیض آ گیا۔ اس لیے انھوں نے بیت اللہ کے طواف کے علاوہ دیگر تمام ارکان حج ادا کیے، پھر جب وہ پاک ہوگئیں تو انھوں نے طواف کیا۔ اس دوران میں انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ سب لوگ حج وعمرہ دونوں مکمل کر کے واپس جا رہے ہیں جبکہ میں صرف حج مکمل کر کے واپس جاؤں گی۔ چنانچہ آپﷺ نے عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ تنعیم جائیں (اور وہاں سے عمرے کا احرام باندھیں) اس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حج کےبعد عمرہ ادا کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کے آخر میں ہے: ’’پھر ایسا ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کو حیض آ گیا۔ انہوں نے بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام مناسک حج پورے کیے اور مخصوص ایام سے فراغت کے بعد (غسل کر کے) بیت اللہ کا طواف کیا۔‘‘ (2) حدیث کی عنوان سے مناسبت یوں واضح ہوتی ہے کہ جنبی اور بے وضو انسان بھی حائضہ کے حکم میں ہے، یعنی یہ حضرات بھی طہارت اور وضو کے بغیر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتے جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے، البتہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ شعبہ نے حضرت حکم، حماد، منصور اور سلیمان سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا جو وضو کے بغیر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے تو انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ لیکن احادیث کی روشنی میں ان حضرات کا یہ موقف محل نظر ہے۔ (فتح الباري:638/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب معلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے او ر ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا۔ آنحضور ﷺ اور طلحہ کے سوا اور کسی کے ساتھ قربانی نہیں تھی، حضرت علی ؓ یمن سے آئے تھے او ران کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ (سب لوگ اپنے حج کے احرام کو) عمرہ کا کرلیں۔ پھر طواف اور سعی کے بعد بال ترشوا لیں اور احرام کھول ڈالیں لیکن وہ لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر صحابہ نے کہا کہ ہم منیٰ میں اس طرح جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ یہ بات جب رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا، اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تومیں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتااو ر جب قربانی کا جانور ساتھ نہ ہوتا تو میں بھی ( عمرہ او رحج کے درمیان ) احرام کھول ڈالتا او رعائشہ ؓ ( اس حج میں ) حائضہ ہوگئی تھیں۔ اس لئے انہوں نے بیت اللہ کہ طواف کے سوا اور دوسرے ارکان حج ادا کئے۔ پھر پاک ہولیں تو طواف بھی کیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ آپ سب لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے جارہے ہیں لیکن میں نے صرف حج ہی کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کو حکم دیا کہ انہیں تنعیم لئے جائیں ( اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھیں ) اس طرح عائشہ ؓ نے حج کے بعد عمرہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) and his companions assumed Ihram for Hajj and none except the Prophet (ﷺ) and Talha had the Hadi (sacrifice) with them. 'Ali arrived from Yemen and had a Hadi with him. 'Ali said, "I have assumed Ihram for what the Prophet (ﷺ) has done." The Prophet (ﷺ) ordered his companions to perform the 'Umra with the lhram which they had assumed, and after finishing Tawaf (of Ka’bah, Safa and Marwa) to cut short their hair, and to finish their lhram except those who had Hadi with them. They (the people) said, "How can we proceed to Mina (for Hajj) after having sexual relations with our wives?" When that news reached the Prophet (ﷺ) he said, "If I had formerly known what I came to know lately, I would not have brought the Hadi with me. Had there been no Hadi with me, I would have finished the state of lhram." 'Aisha (RA) got her menses, so she performed all the ceremonies of Hajj except Tawaf of the Ka’bah, and when she got clean (from her menses), she performed Tawaf of the Ka’bah. She said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (All of you) are returning with the Hajj and 'Umra, but I am returning after performing Hajj only." So the Prophet (ﷺ) ordered 'Abdur-Rahman bin Abu Bakr (RA) to accompany her to Tan'im and thus she performed the 'Umra after the Hajj. ________