Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: As-Salat at Mina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1656.
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی ؓ سے روایت ہےانھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں منیٰ میں دو رکعتیں پڑھائیں، حالانکہ ہم کسی وقت بھی اس سے زیادہ کثیر تعداد میں نہ تھے اور نہ اس سے زیادہ امن والے ہی تھے۔
تشریح:
(1) قرآن کریم میں نماز قصر کو حالت خوف کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ حضرت حارثہ بن وہب ؓ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ قرآن کریم کی مذکورہ شرط اتفاقی ہے احترازی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منیٰ میں نماز قصر پڑھائی، حالانکہ ہمیں وہاں کسی کا خوف یا دشمن سے خطرہ نہیں تھا بلکہ تعداد کے اعتبار سے ہم کبھی اس سے زیادہ نہ تھے اور وہاں ہمیں کسی قسم کا خوف یا خطرہ بھی نہ تھا، اس کے باوجود رسول الله ﷺ نے ہمیں منیٰ میں قیام کے دوران دو، دو رکعتیں پڑھائی ہیں۔ بہرحال حجاج کرام کو منیٰ میں قیام کے دوران نماز قصر کا اہتمام کرنا چاہیے، خواہ وہ مسجد خیف میں باجماعت پڑھیں یا اپنے اپنے خیموں میں ادا کریں۔ (2) امام ابوداود ؒ نے اس حدیث سے اہل مکہ کے لیے ایام حج میں نماز قصر ثابت کی ہے کیونکہ حضرت حارثہ ؓ مکہ کے رہائشی تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1965)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1610
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1656
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1656
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1656
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس باب کا مطلب یہ ہے کہ حجاج کرام کو منیٰ میں نماز قصر پڑھنی چاہیے یا پوری؟ اگر قصر پڑھنی ہے تو سفر کی وجہ سے ہے یا مناسک حج کی وجہ سے؟ اگر سفر کی وجہ سے ہے تو مکہ اور اس کے گردونواح کے لوگوں کو نماز پوری پڑھنی ہو گی۔ اگر مناسک حج کی وجہ سے ہے تو اہل مکہ اور اس کے آس پاس سے آنے والے حجاج کرام بھی قصر پڑھیں گے۔ ہمارے نزدیک یہ مناسک حج سے ہے۔ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں حج کے دوران میں نماز قصر ہی پڑھی جائے گی۔
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی ؓ سے روایت ہےانھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں منیٰ میں دو رکعتیں پڑھائیں، حالانکہ ہم کسی وقت بھی اس سے زیادہ کثیر تعداد میں نہ تھے اور نہ اس سے زیادہ امن والے ہی تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) قرآن کریم میں نماز قصر کو حالت خوف کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ حضرت حارثہ بن وہب ؓ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ قرآن کریم کی مذکورہ شرط اتفاقی ہے احترازی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منیٰ میں نماز قصر پڑھائی، حالانکہ ہمیں وہاں کسی کا خوف یا دشمن سے خطرہ نہیں تھا بلکہ تعداد کے اعتبار سے ہم کبھی اس سے زیادہ نہ تھے اور وہاں ہمیں کسی قسم کا خوف یا خطرہ بھی نہ تھا، اس کے باوجود رسول الله ﷺ نے ہمیں منیٰ میں قیام کے دوران دو، دو رکعتیں پڑھائی ہیں۔ بہرحال حجاج کرام کو منیٰ میں قیام کے دوران نماز قصر کا اہتمام کرنا چاہیے، خواہ وہ مسجد خیف میں باجماعت پڑھیں یا اپنے اپنے خیموں میں ادا کریں۔ (2) امام ابوداود ؒ نے اس حدیث سے اہل مکہ کے لیے ایام حج میں نماز قصر ثابت کی ہے کیونکہ حضرت حارثہ ؓ مکہ کے رہائشی تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1965)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے ابواسحاق ہمدانی سے بیان کیا اور ان سے حارثہ بن وہب خزاعی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے منیٰ میں ہمیں دو رکعات پڑھائیں، ہمارا شمار اس وقت سب وقتوں سے زیادہ تھا اور ہم اتنے بے ڈر کسی وقت میں نہ تھے۔ (اس کے باوجود ہم کو نماز قصر پڑھائی )
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Haritha bin Wahab Al-Khuza'i (RA): The Prophet (ﷺ) led us in a two-Rakat prayer at Mina although our number was more than ever and we were in better security than ever.