باب: دسویں تاریخ صبح کو تکبیر اور لبیک کہتے رہنا جمرہ عقبہ کی رمی تک اور چلتے ہوئے (سواری پر کسی کو ) اپنے پیچھے بٹھا لینا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Talbiya and Takbir in the morning of the day of Nahr till the Ramy of Jamarat-al-'Aqaba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1686.
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ عرفہ سے مزدلفہ تک رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے۔ پھر آپ نے مزدلفہ سے منیٰ تک حضرت فضل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ دونوں حضرات کا مشترکہ بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ جمرہ عقبہ کو رمی کرنے تک تلبیہ کہتے رہے۔
تشریح:
(1) قربانی کے دن پہلا کام جمرہ عقبہ کی رمی کرنا ہے۔ رمی کرنے تک تلبیہ اور تکبیر کہتے رہنا چاہیے۔ (2) اب یہاں تین مسائل بیان کیے جاتے ہیں: ٭ امام بخاری ؒ نے جو روایت پیش کی ہے اس میں تلبیے کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں آپ نے تکبیر کو بھی بیان کیا ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں تکبیر کا بھی ذکر ہے۔ امام احمد نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ ؓ سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلا، آپ نے جمرہ عقبہ کو رمی کرنے تک تلبیہ ترک نہیں فرمایا۔ کبھی کبھی تلبیہ کہتے وقت اللہ أکبر بھی کہتے تھے۔ (مسندأحمد:417/1) ٭ تلبیہ کب ختم کرنا چاہیے؟ رمی شروع کرتے وقت یا اس کے ختم ہونے کے بعد؟ صحیح ابن خزیمہ میں اس کی وضاحت ہے کہ آخری کنکری مارنے تک تلبیہ جاری رہنا چاہیے، چنانچہ حضرت فضل بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عرفات سے واپس ہوا، آپ آخری جمرے کو رمی کرنے تک تلبیہ کہتے رہے، پھر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے اور آخری کنکری مارنے تک تلبیہ بھی جاری رکھا۔ (صحیح ابن خزیمة:282/4، حدیث:2887) ٭ جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے، چنانچہ امام ابن منذر کہتے ہیں کہ رمی جمار طلوع آفتاب کے بعد کی جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور طلوع فجر سے پہلے رمی کرنا درست نہیں۔ ایسا کرنے والا سنت کا مخالف ہو گا۔ ہاں، اگر کسی نے ایسے کیا تو پھر اسے دوبارہ رمی کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ مجھے کوئی ایسا شخص معلوم نہیں جو اسے ناکافی خیال کرتا ہو۔ (فتح الباري:668/3) واضح رہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی فرمائی، چنانچہ حضرت ام حصین ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت اسامہ بن زید اور حضرت بلال ؓ کو حجۃ الوداع کے موقع پر دیکھا ایک نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کی لگام پکڑ رکھی تھی اور دوسرے نے گرمی سے بچاؤ کے لیے کپڑا تان رکھا تھا حتی کہ آپ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو گئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3138(1298))
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
1703
٢
ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
1686
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1574
٤
ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
1687
٥
ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
1602
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1640
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1686
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1686
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1686
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں جاکر نماز فجر سے فارغ ہو کر سورج نکلنے کے بعد رمی جمار کرنا ضروری ہے۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : قال ابن المنذرالسنۃ ان لا یرمی الا بعد طلوع الشمس کما فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم و لا یجوز الرمی قبل طلوع الفجر لان فاعلہ مخالف للسنۃ و من رمی حینئذ لا اعادۃ علیہ اذ لا اعلم احدا قال لا یجزئہ ( فتح ) یعنی ابن منذر نے کہا کہ سنت یہی ہے کہ رمی جمار سورج نکلنے کے بعد کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے اور طلوع فجر سے پہلے رمی جمار درست نہیں اس کا کرنے والا سنت کا مخالف ہوگا۔ ہاں اگر کسی نے اس وقت رمی جمار کر لیا تو پھر اس پر دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس لیے کہ مجھے کوئی ایسا شخص معلوم نہیں جس نے اسے غیر کافی کہا ہو۔ حضرت اسماءرضی اللہ عنہاسے رات میں رمی جمارکرنا بھی منقول ہے جیسا کہ اس کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کمزور مردوں عورتوں کے لیے اجازت ہے کہ وہ رات ہی میں مزدلفہ سے کوچ کرکے منیٰ آجائیں اور آنے پر خواہ رات ہی کیوں نہ ہو رمی جمار کرلیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کی رات میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : اذہب بضعفاءنا و نساءنا فلیصلوا الصبح بمنی و یرموا جمرۃ العقبۃ قبل ان تصیبہم دفعۃ الناس ( فتح الباری ) یعنی آپ ہمارے ضعیفوں اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ لے جائیے تاکہ وہ صبح کی نماز منی میں ادا کرلیں اور لوگوں کے اژدہام سے پہلے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو جائیں۔ واللہ اعلم بالصواب
یہ عنوان دو اجزاء پر مشتمل ہے: (1) رمی جمرہ تک تلبیہ کہتے رہنا۔ (2) دوران سفر میں کسی کو اپنے پیچھے بٹھانا۔ اس میں اختلاف ہے کہ رمی شروع کرتے وقت یا اختتام کے وقت تلبیہ ختم کرنا ہے، اس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ عرفہ سے مزدلفہ تک رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے۔ پھر آپ نے مزدلفہ سے منیٰ تک حضرت فضل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ دونوں حضرات کا مشترکہ بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ جمرہ عقبہ کو رمی کرنے تک تلبیہ کہتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) قربانی کے دن پہلا کام جمرہ عقبہ کی رمی کرنا ہے۔ رمی کرنے تک تلبیہ اور تکبیر کہتے رہنا چاہیے۔ (2) اب یہاں تین مسائل بیان کیے جاتے ہیں: ٭ امام بخاری ؒ نے جو روایت پیش کی ہے اس میں تلبیے کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں آپ نے تکبیر کو بھی بیان کیا ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں تکبیر کا بھی ذکر ہے۔ امام احمد نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ ؓ سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلا، آپ نے جمرہ عقبہ کو رمی کرنے تک تلبیہ ترک نہیں فرمایا۔ کبھی کبھی تلبیہ کہتے وقت اللہ أکبر بھی کہتے تھے۔ (مسندأحمد:417/1) ٭ تلبیہ کب ختم کرنا چاہیے؟ رمی شروع کرتے وقت یا اس کے ختم ہونے کے بعد؟ صحیح ابن خزیمہ میں اس کی وضاحت ہے کہ آخری کنکری مارنے تک تلبیہ جاری رہنا چاہیے، چنانچہ حضرت فضل بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عرفات سے واپس ہوا، آپ آخری جمرے کو رمی کرنے تک تلبیہ کہتے رہے، پھر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے اور آخری کنکری مارنے تک تلبیہ بھی جاری رکھا۔ (صحیح ابن خزیمة:282/4، حدیث:2887) ٭ جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے، چنانچہ امام ابن منذر کہتے ہیں کہ رمی جمار طلوع آفتاب کے بعد کی جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور طلوع فجر سے پہلے رمی کرنا درست نہیں۔ ایسا کرنے والا سنت کا مخالف ہو گا۔ ہاں، اگر کسی نے ایسے کیا تو پھر اسے دوبارہ رمی کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ مجھے کوئی ایسا شخص معلوم نہیں جو اسے ناکافی خیال کرتا ہو۔ (فتح الباري:668/3) واضح رہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی فرمائی، چنانچہ حضرت ام حصین ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت اسامہ بن زید اور حضرت بلال ؓ کو حجۃ الوداع کے موقع پر دیکھا ایک نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کی لگام پکڑ رکھی تھی اور دوسرے نے گرمی سے بچاؤ کے لیے کپڑا تان رکھا تھا حتی کہ آپ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو گئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3138(1298))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، ان سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے یونس ایلی نے، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے کہ اسامہ بن زید ؓ عرفات سے مزدلفہ تک نبی کریم ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ ﷺ نے مزدلفہ سے منی جاتے وقت فضل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں حضرات نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل لبیک کہتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaidullah bin ' Abdullah (RA): Ibn Abbas (RA) said, "Usama bin Zaid rode behind the Prophet (ﷺ) from 'Arafat to Al-Muzdalifa; and then from Al-Muzdalifa to Mina, Al-Fadl rode behind him." He added, "Both of them (Usama and Al-Fadl) said, 'The Prophet (ﷺ) was constantly reciting Talbiya till he did Rami of the Jamarat-al-'Aqabah."