باب : اس کے بارے میں جس نے اپنے ہاتھ سے (قربانی کے جانوروں کو ) قلائد پہنائے
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The garlands round the necks of the Hady)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1700.
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمٰن بیان کرتیں ہیں کہ حضرت زیاد بن ابو سفیان نے حضرت عائشہ ؓ کو لکھا کہ ابن عباس ؓ کہتے ہیں جو شخص مکہ مکرمہ کی طرف قربانی کا جانوربھیج دے اس پر ہر وہ چیز حرام ہو جاتی ہے جو حج کرنے والے پر حرام ہوتی ہے تاآنکہ اس جانور کو ذبح کردیا جائے۔ عمرہ کہتی ہیں۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ’’جو ابن عباس ؓنے کہا وہ درست نہیں ہے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہدی (قربانی) کے ہار خود اپنے ہاتھ سے تیار کیے، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے ان قلادوں کو پہنایا اور میرے والد محترم کے ساتھ انھیں روانہ کیا مگر کوئی چیز جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال کی تھی وہ حرام نہیں ہوئی تاآنکہ اس ہدی کو ذبح کردیا گیا۔
تشریح:
(1) قربانی کے جانور کو قلادہ پہنانے کی دو حالتیں ہیں: ٭ آدمی حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور قربانی کا جانور ساتھ لے کر جانے کا پروگرام ہو تو احرام کے وقت انہیں قلادہ پہنائے اور ان کا اشعار کرے۔ ٭ صرف قربانی کا جانور بھیجنے کا ارادہ ہو، حج کرنے کا پروگرام نہ ہو، ایسی صورت میں اپنے گھر سے انہیں قلادہ پہنا دے اور اشعار کرے، اس پر کوئی اضافی پابندی عائد نہیں ہو گی۔ (2) حضرت ابن عباس ؓ کے موقف کی بنیاد محض قیاس تھا جسے حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے عمل سے رد کر دیا۔ لوگوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف سے اتفاق کیا اور حضرت ابن عباس ؓ کے فتوے کو ترک کر دیا۔ علاوہ ازیں حضرت ابن عمر ؓ سے بھی منقول ہے کہ وہ جب اپنی قربانی مکہ مکرمہ بھیجتے تو محرم انسان کی طرح پرہیز کرتے تھے، البتہ تلبیہ نہیں کہتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:120/5) امام بیہقی بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ ؓنے اس مسئلے میں لوگوں کو اندھیرے سے نکالا اور انہیں سنت کی راہ دکھائی۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:234/5، وفتح الباري:690/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1652
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1700
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1700
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1700
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمٰن بیان کرتیں ہیں کہ حضرت زیاد بن ابو سفیان نے حضرت عائشہ ؓ کو لکھا کہ ابن عباس ؓ کہتے ہیں جو شخص مکہ مکرمہ کی طرف قربانی کا جانوربھیج دے اس پر ہر وہ چیز حرام ہو جاتی ہے جو حج کرنے والے پر حرام ہوتی ہے تاآنکہ اس جانور کو ذبح کردیا جائے۔ عمرہ کہتی ہیں۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ’’جو ابن عباس ؓنے کہا وہ درست نہیں ہے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہدی (قربانی) کے ہار خود اپنے ہاتھ سے تیار کیے، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے ان قلادوں کو پہنایا اور میرے والد محترم کے ساتھ انھیں روانہ کیا مگر کوئی چیز جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال کی تھی وہ حرام نہیں ہوئی تاآنکہ اس ہدی کو ذبح کردیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) قربانی کے جانور کو قلادہ پہنانے کی دو حالتیں ہیں: ٭ آدمی حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور قربانی کا جانور ساتھ لے کر جانے کا پروگرام ہو تو احرام کے وقت انہیں قلادہ پہنائے اور ان کا اشعار کرے۔ ٭ صرف قربانی کا جانور بھیجنے کا ارادہ ہو، حج کرنے کا پروگرام نہ ہو، ایسی صورت میں اپنے گھر سے انہیں قلادہ پہنا دے اور اشعار کرے، اس پر کوئی اضافی پابندی عائد نہیں ہو گی۔ (2) حضرت ابن عباس ؓ کے موقف کی بنیاد محض قیاس تھا جسے حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے عمل سے رد کر دیا۔ لوگوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف سے اتفاق کیا اور حضرت ابن عباس ؓ کے فتوے کو ترک کر دیا۔ علاوہ ازیں حضرت ابن عمر ؓ سے بھی منقول ہے کہ وہ جب اپنی قربانی مکہ مکرمہ بھیجتے تو محرم انسان کی طرح پرہیز کرتے تھے، البتہ تلبیہ نہیں کہتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:120/5) امام بیہقی بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ ؓنے اس مسئلے میں لوگوں کو اندھیرے سے نکالا اور انہیں سنت کی راہ دکھائی۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:234/5، وفتح الباري:690/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم نے خبر دی، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے خبر دی کہ زیاد بن ابی سفیان نے عائشہ ؓ کو لکھا کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ جس نے ہدی بھیج دی اس پر وہ تمام چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو ایک حاجی پر حرام ہوتی ہیں تا آنکہ اس کی ہدی کی قربانی کر دی جائے، عمرہ نے کہا کہ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا عبداللہ بن عباس ؓ نے جو کچھ کہا مسئلہ اس طرح نہیں ہے، میں نے نبی کریم ﷺ کے قربانی کے جانوروں کے قلادے اپنے ہاتھوں سے خود بٹے ہیں، پھر آنحضرت ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے ان جانوروں کو قلادہ پہنایا اور میرے والد محترم (ابوبکر ؓ ) کے ساتھ انہیں بھیج دیا لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے کسی بھی ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کیا جو اللہ نے آپ ﷺ کے لیے حلال کی تھی، اور ہدی کی قربانی بھی کر دی گئی۔
حدیث حاشیہ:
یہ 9ھ کا واقعہ ہے اس سال رسول کریم ﷺ نے اپنے نائب کی حیثیت سے حضرت ابوبکر ؓ کو حج کے لیے بھیجا تھا، آئندہ سال حجۃ الوداع کیا گیا۔ اس بارے میں حضرت عبداللہ عباس ؓ کا فتوی درست نہ تھا، اس لیے حضرت عائشہ ؓ نے اس کی تردید کردی۔ معلوم ہوا کہ غلطیوں کا امکان بڑی شخصیتوں سے بھی ہو سکتا ہے، ممکن ہے حضرت ابن عباس ؓ نے اس خیال سے بعد میں رجوع کر لیا ہو۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ امر حق جسے بھی معلوم ہو ظاہر کر دینا چاہئے اور اس بارے میں کسی بھی بڑی شخصیت سے مرعوب نہ ہونا چاہئے کیوں کہ الحق یعلو و لا یعلی۔یعنی امر حق ہمیشہ غالب رہتا ہے اسے مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abu Bakr (RA) bin 'Amr bin Hazm that 'Amra bint 'Abdur-Rahman had told him, "Zaid bin Abu Sufyan (RA) wrote to 'Aisha (RA) that ' Abdullah bin Abbas (RA) had stated, 'Whoever sends his Hadi (to the Ka’bah), all the things which are illegal for a (pilgrim) become illegal for that person till he slaughters it (i.e. till the 10th of Dhul-Hijja).' " 'Amra added, 'Aisha (RA) said, 'It is not like what Ibn Abbas (RA) had said: I twisted the garlands of the Hadis of Allah's Apostle (ﷺ) with my own hands. Then Allah's Apostle (ﷺ) put them round their necks with his own hands, sending them with my father; Yet nothing permitted by Allah was considered illegal for Allah's Apostle (ﷺ) till he slaughtered the Hadis.' " ________