Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The covering (sheet) of the Budn)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ صرف کوہان کی جگہ کے جھول کو پھاڑتے اور جب اس کی قربانی کرتے تو اس ڈر سے کہ کہیں اسے خون خراب نہ کردے جھول اتار دیتے اور پھر اس کو بھی صدقہ کر دیتے۔
1707.
حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا تھا کہ جو اونٹ قربانی کے طور پر میں نے ذبح کیے ہیں ان کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں اختصار ہے۔ درحقیقت رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹ قربانی کے طور پر ذبح کیے تھے۔ حضرت علی ؓ کو ان کا گوشت، کھالیں اور جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1718) (2) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو جھول اور قلادے پہنائے جائیں۔ ان سے تو عمل کا اظہار ہوتا ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ اپنے اعمال لوگوں سے چھپائیں تاکہ ریاکاری نہ ہو جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ حج کے تمام اعمال اظہار پر مبنی ہی، مثلا: احرام، طواف، وقوف، اسی طرح اشعار و تقلید میں بھی اظہار ہے۔ (فتح الباري:694/3) دراصل یہ انسان کی نیت پر موقوف ہے۔ اگر نیت میں نمودونمائش مقصود نہیں تو ان اعمال کے اظہار سے عنداللہ مؤاخذہ نہیں ہو گا، اور اگر نیت میں ریاکاری اور نمودونمائش ہے تو اس کی موجودگی میں کوئی عمل بھی شرف قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1659
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1707
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1707
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1707
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس اثر کو امام مالک نے مؤطا میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المؤطاللامام مالک:1/349) اس کا فائدہ یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو اشعار کر کے جو علامت لگائی گئی ہے، وہ ظاہر ہو جائے۔ مؤطا میں ایک روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جھول کو چیرا نہیں کرتے تھے۔ (المؤطاللامام مالک:1/349) غالبا یہ اختلاف احوال پر محمول ہے، یعنی اگر کپڑا قیمتی ہوتا تو نہ پھاڑتے اور اگر معمولی ہوتا تو اسے کوہان سے پھاڑ دیتے تھے۔ ابن منذر نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قربانی کے جانوروں کو بہترین یمنی دھاری دار چادروں کا جھول پہناتے۔ مدینہ سے باہر نکل کر انہیں اتار لیتے اور لپیٹ کر محفوظ کر لیتے، پھر عرفہ کے دن انہیں پہنا دیتے یہاں تک کہ انہیں ذبح کر دیا جاتا، پھر انہیں صدقہ کر دیتے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ جو چیز اللہ کی طرف منسوب ہو چکی ہے اس کا کوئی حصہ بھی اپنے ذاتی مصرف میں نہ لایا جائے۔ (فتح الباری:3/694)
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ صرف کوہان کی جگہ کے جھول کو پھاڑتے اور جب اس کی قربانی کرتے تو اس ڈر سے کہ کہیں اسے خون خراب نہ کردے جھول اتار دیتے اور پھر اس کو بھی صدقہ کر دیتے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا تھا کہ جو اونٹ قربانی کے طور پر میں نے ذبح کیے ہیں ان کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں اختصار ہے۔ درحقیقت رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹ قربانی کے طور پر ذبح کیے تھے۔ حضرت علی ؓ کو ان کا گوشت، کھالیں اور جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1718) (2) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو جھول اور قلادے پہنائے جائیں۔ ان سے تو عمل کا اظہار ہوتا ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ اپنے اعمال لوگوں سے چھپائیں تاکہ ریاکاری نہ ہو جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ حج کے تمام اعمال اظہار پر مبنی ہی، مثلا: احرام، طواف، وقوف، اسی طرح اشعار و تقلید میں بھی اظہار ہے۔ (فتح الباري:694/3) دراصل یہ انسان کی نیت پر موقوف ہے۔ اگر نیت میں نمودونمائش مقصود نہیں تو ان اعمال کے اظہار سے عنداللہ مؤاخذہ نہیں ہو گا، اور اگر نیت میں ریاکاری اور نمودونمائش ہے تو اس کی موجودگی میں کوئی عمل بھی شرف قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓجھول کو صرف کوہان کی جگہ سے پھاڑ تے تھے۔ جب جانور کو ذبح کرتے تو جھول کو اتار دیتے۔ مبادا خون اسے خراب کردے، پھر اسے صدقے کردیتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کر دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں کی ہر چیز حتی کہ جھول تک بھی صدقہ کردی جائے اور قصائی کو ان میں سے اجرت میں کچھ نہ دیا جائے، اجرت علیحدہ دینی چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): Allah's Apostle (ﷺ) ordered me to give in charity the skin and the coverings of the Budn which I had slaughtered.