باب : اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی ہدی راستہ میں خریدی او راسے ہار پہنایا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The purchase of Hadi on the way and garlanding it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1708.
حضرت نافع سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے دور حکومت میں حروریہ کے حج کے سال حج کرنے کا ارادہ کیا تو ان سے عرض کیا گیا: لوگوں میں جنگ ہونے والی ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ آپ کو بیت اللہ سے روک دیں گے۔ انھوں نے فرمایا: (ارشاد باری تعالیٰ ہے: ) ’’تمھارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات گرامی میں) بہترین نمونہ ہے۔‘‘ میں اس وقت وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کو خود پر واجب کرلیاہے۔ جب وہ بیداء کے کھلے میدان میں پہنچے تو فرمانے لگے حج اور عمرے کا حال ایک جیسا ہے۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے حج کو عمرے کے ساتھ جمع کرلیا ہے۔ پھر انھوں نے قربانی کے جانور کو قلادہ ڈال کر روانہ کیا جو انھوں نے خرید کر لیا تھا۔ جب مکہ مکرمہ پہنچے تو بیت اللہ اور صفا ومروہ کا طواف کیا اور اس پر کسی چیز کا اضافہ نہ کیا اور کسی چیز کو حلال خیال نہ کیا جو ان پر بحالت احرام حرام تھی حتی کہ ذوالحجہ کے دسویں روز حلق کیا اور قربانی دی۔ انھوں نے خیال کیا کہ پہلے ہی طواف سے حج اور عمرے کا طواف پورا کر لیا ہے، پھر فرمایا کہ نبی ﷺ نے بھی ایسے ہی کیا تھا۔
تشریح:
(1) یہ عنوان معمولی سے لفظی اختلاف کے ساتھ پہلے گزر چکا ہے۔ (باب: 105)۔ اس میں صرف قربانی کو قلادہ ڈالنے کا اضافہ ہے، یعنی ضروری نہیں کہ قربانی کے جانور کو گھر سے قلادہ ڈال کر لایا جائے بلکہ راستے سے خرید کر بھی اس سنت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ (2) اس روایت میں حج حروریہ کا ذکر ہے۔ حروراء کوفہ کے قریب ایک بستی کا نام ہے جہاں خوارج کا پہلا اجتماع ہوا تھا اسی مناسبت سے انہیں حروریہ کہا گیا۔ خوارج کا حج 64 ہجری میں ہوا تھا اور جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے حجاج بن یوسف نے جنگ کا ارادہ کیا وہ 73 ہجری کا واقعہ ہے۔ ممکن ہے کہ راوی نے حجاج اور اس کے اتباع پر خوارج کا اطلاق کیا ہو کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی حکومت برحق تھی اور حجاج نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ان کی اطاعت سے خارج ہو گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ متعدد مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو کسی قسم کے خدشات سے واسطہ نہ پڑا بلکہ انہوں نے بروقت جملہ ارکان حج ادا فرمائے۔ (فتح الباري:695/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1660
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1708
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1708
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1708
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت نافع سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے دور حکومت میں حروریہ کے حج کے سال حج کرنے کا ارادہ کیا تو ان سے عرض کیا گیا: لوگوں میں جنگ ہونے والی ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ آپ کو بیت اللہ سے روک دیں گے۔ انھوں نے فرمایا: (ارشاد باری تعالیٰ ہے: ) ’’تمھارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات گرامی میں) بہترین نمونہ ہے۔‘‘ میں اس وقت وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کو خود پر واجب کرلیاہے۔ جب وہ بیداء کے کھلے میدان میں پہنچے تو فرمانے لگے حج اور عمرے کا حال ایک جیسا ہے۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے حج کو عمرے کے ساتھ جمع کرلیا ہے۔ پھر انھوں نے قربانی کے جانور کو قلادہ ڈال کر روانہ کیا جو انھوں نے خرید کر لیا تھا۔ جب مکہ مکرمہ پہنچے تو بیت اللہ اور صفا ومروہ کا طواف کیا اور اس پر کسی چیز کا اضافہ نہ کیا اور کسی چیز کو حلال خیال نہ کیا جو ان پر بحالت احرام حرام تھی حتی کہ ذوالحجہ کے دسویں روز حلق کیا اور قربانی دی۔ انھوں نے خیال کیا کہ پہلے ہی طواف سے حج اور عمرے کا طواف پورا کر لیا ہے، پھر فرمایا کہ نبی ﷺ نے بھی ایسے ہی کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ عنوان معمولی سے لفظی اختلاف کے ساتھ پہلے گزر چکا ہے۔ (باب: 105)۔ اس میں صرف قربانی کو قلادہ ڈالنے کا اضافہ ہے، یعنی ضروری نہیں کہ قربانی کے جانور کو گھر سے قلادہ ڈال کر لایا جائے بلکہ راستے سے خرید کر بھی اس سنت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ (2) اس روایت میں حج حروریہ کا ذکر ہے۔ حروراء کوفہ کے قریب ایک بستی کا نام ہے جہاں خوارج کا پہلا اجتماع ہوا تھا اسی مناسبت سے انہیں حروریہ کہا گیا۔ خوارج کا حج 64 ہجری میں ہوا تھا اور جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے حجاج بن یوسف نے جنگ کا ارادہ کیا وہ 73 ہجری کا واقعہ ہے۔ ممکن ہے کہ راوی نے حجاج اور اس کے اتباع پر خوارج کا اطلاق کیا ہو کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی حکومت برحق تھی اور حجاج نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ان کی اطاعت سے خارج ہو گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ متعدد مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو کسی قسم کے خدشات سے واسطہ نہ پڑا بلکہ انہوں نے بروقت جملہ ارکان حج ادا فرمائے۔ (فتح الباري:695/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر ؓ نے ابن زبیر ؓ کے عہد خلافت میں حجۃ الحروریہ کے سال حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ لوگوں میں باہم قتل و خون ہونے والا ہے اور ہم کو خطرہ اس کا ہے کہ آپ کو (مفسد لوگ حج سے ) روک دیں، آپ نے جواب میں یہ آیت سنائی کہ ’’تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اس وقت میں بھی وہی کام کروں گا جو آنحضرت ﷺ نے کیا تھا۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے، پھر جب آپ بیداءکے بالائی حصہ تک پہنچے تو فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ میں نے حج کو بھی جمع کر لیا ہے، پھر آپ نے ایک ہدی بھی ساتھ لے لی جسے ہار پہنایا گیا تھا۔ آپ نے اسے خرید لیا یہاں تک کہ آپ مکہ آئے تو بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کی، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جو چیزیں (احرام کی وجہ سے ان پر ) حرام تھیں ان میں سے کسی سے قربانی کے دن تک وہ حلال نہیں ہوئے، پھر سر منڈوایا اور قربانی کی وجہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنا پہلا طواف کرکے انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا طواف پورا کر لیا ہے پھر آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں حجۃ الحروریہ سے مراد امت کے طاغی حجاج کی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خلاف فوج کشی ہے۔ یہ73ھ کا واقعہ ہے، حجاج خود خارجی نہیں تھا لیکن خارجیوں کی طرح اس نے بھی دعوائے اسلام کے باوجود حرم اور اسلام دونوں کی حرمت پر تاخت کی تھی۔ اس لیے راوی نے اس کے اس حملہ کو بھی خارجیوں کے حملہ کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو بھی ایک طرح سے خارجیوں کا حملہ تصور کیا کہ اس نے امام حق یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خلاف چڑھائی کی۔ حجۃ الحروریہ کہنے سے ہجو اور خوارج کے سے عمل کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ خارجیوں نے 64ھ میں حج کیا تھا، احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ان ہر دو سالوں میں حج کیا ہو۔ باب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے راستہ میں قربانی کا جانور خرید لیا اور عمرہ کے ساتھ حج کو بھی جمع فرما لیا اور فرمایا کہ اگر مجھ کو حج سے روک دیا گیا تو آنحضرت ﷺ کو بھی مشرکوں نے حدیبیہ کے سال حج سے روک دیا تھا اور آپ ﷺ نے اسی جگہ احرام کھول کر جانوروں کو قربان کرا دیا تھا، میں بھی ویسا ہی کرلوں گا، مگر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے بروقت جملہ ارکان حج کو ادا فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi': Ibn 'Umar (RA) intended to perform Hajj in the year of the Hajj of Al-Harawriya during the rule of Ibn Az-Zubair. Some people said to him, "It is very likely that there will be a fight among the people, and we are afraid that they might prevent you (from performing Hajj)." He replied, "Verily, in Allah's Apostle (ﷺ) there is a good example for you (to follow). In this case I would do the same as he had done. I make you witness that I have intended to perform 'Umra." When he reached Al-Baida', he said, "The conditions for both Hajj and 'Umra are the same. I make you witness that I have intended to perform Hajj along with 'Umra." After that he took a garlanded Hadi (to Makkah) which he bought (on the way). When he reached (Makkah), he performed Tawaf of the Ka’bah and of Safa (and Marwa) and did not do more than that. He did not make legal for himself the things which were illegal for a Muhrim till it was the Day of Nahr (sacrifice), when he had his head shaved and slaughtered (the sacrifice) and considered sufficient his first Tawaf (between Safa and Marwa), as a (Sa'i) for his Hajj and 'Umra both. He then said, "The Prophet (ﷺ) used to do like that."