باب : قربانی کے جانوروں میں سے کیا کھائیں او رکیا خیرات کریں
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: What is to be eaten of Budn and what to be distributed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبیداللہ نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی او رانہیں ابن عمر ؓ نے کہا کہ احرام میں کوئی شکار کرے اور اس کا بدلہ دینا پڑے تو بدلہ کے جانور اور نذر کے جانور سے خود کچھ بھی نہ کھائے اور باقی سب میں سے کھا لے اور عطا نے کہا تمتع کی قربانی سے کھائے اور کھلائے۔
1719.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایام منیٰ میں ہم قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہیں کھاتے تھے لیکن نبی ﷺ نے ہمیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’کھاؤ اور زادراہ کے طور پر ساتھ بھی لے جاؤ۔‘‘ چنانچہ ہم نے کھایا اور توشے کے طور پر ساتھ بھی لائے۔ ابن جریج کہتے ہیں: میں عطاء سے دریافت کیا کہ آیا حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ نے یہ کہا تھا : حتی کہ ہم مدینہ طیبہ پہنچ گئے؟حضرت عطاء نے جواب دیا: نہیں(یہ نہیں کہا تھا)
تشریح:
(1) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح نے ابن جریج کے پوچھنے پر فرمایا تھا کہ ہاں حضرت جابر ؓ نے فرمایا تھا: ’’ہاں، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ شاید حضرت عطاء بھول گئے ہوں، پہلے نہیں کہا ہو، پھر یاد آیا تو ہاں کہنے لگے۔‘‘ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ حدیث منسوخ ہے جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ دراصل ابتدائے اسلام میں کچھ لوگ مدینہ طیبہ کے مضافات سے شہر آئے، جبکہ عیدالاضحیٰ کا دن تھا۔ وہ بہت غریب تھے۔ ان کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم قربانی کا گوشت صرف تین دن تک کھا سکتے ہو اور جو باقی بچے اسے صدقہ کر دو۔‘‘ جب یہ سال گزر گیا تو لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! لوگ قربانی کی کھالوں سے مشکیزے بنا کر ان میں چربی وغیرہ رکھا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اب کیا بات ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ آپ نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تو پچھلے سال غریب لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو دیہاتوں سے آئے تھے تاکہ ان کے لیے وافر مقدار میں گوشت بچ رہے۔ اب تمہیں اجازت ہے کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، صدقہ کرو اور جمع کر کے رکھو۔‘‘(صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث:5103(1971))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1671
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1719
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1719
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1719
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
معنی کے اعتبار سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عطاء بن ابی رباح کے اقوال میں کوئی فرق نہیں، صرف اسلوب اور طرز ادا ہی الگ الگ ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے (تفسیرالطبری:2/290) اور حضرت عطاء بن ابی رباح کی تعلیق امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں بیان کی ہے۔ (فتح الباری:3/705،404)
اور عبیداللہ نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی او رانہیں ابن عمر ؓ نے کہا کہ احرام میں کوئی شکار کرے اور اس کا بدلہ دینا پڑے تو بدلہ کے جانور اور نذر کے جانور سے خود کچھ بھی نہ کھائے اور باقی سب میں سے کھا لے اور عطا نے کہا تمتع کی قربانی سے کھائے اور کھلائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایام منیٰ میں ہم قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہیں کھاتے تھے لیکن نبی ﷺ نے ہمیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’کھاؤ اور زادراہ کے طور پر ساتھ بھی لے جاؤ۔‘‘ چنانچہ ہم نے کھایا اور توشے کے طور پر ساتھ بھی لائے۔ ابن جریج کہتے ہیں: میں عطاء سے دریافت کیا کہ آیا حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ نے یہ کہا تھا : حتی کہ ہم مدینہ طیبہ پہنچ گئے؟حضرت عطاء نے جواب دیا: نہیں(یہ نہیں کہا تھا)
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح نے ابن جریج کے پوچھنے پر فرمایا تھا کہ ہاں حضرت جابر ؓ نے فرمایا تھا: ’’ہاں، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ شاید حضرت عطاء بھول گئے ہوں، پہلے نہیں کہا ہو، پھر یاد آیا تو ہاں کہنے لگے۔‘‘ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ حدیث منسوخ ہے جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ دراصل ابتدائے اسلام میں کچھ لوگ مدینہ طیبہ کے مضافات سے شہر آئے، جبکہ عیدالاضحیٰ کا دن تھا۔ وہ بہت غریب تھے۔ ان کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم قربانی کا گوشت صرف تین دن تک کھا سکتے ہو اور جو باقی بچے اسے صدقہ کر دو۔‘‘ جب یہ سال گزر گیا تو لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! لوگ قربانی کی کھالوں سے مشکیزے بنا کر ان میں چربی وغیرہ رکھا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اب کیا بات ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ آپ نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تو پچھلے سال غریب لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو دیہاتوں سے آئے تھے تاکہ ان کے لیے وافر مقدار میں گوشت بچ رہے۔ اب تمہیں اجازت ہے کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، صدقہ کرو اور جمع کر کے رکھو۔‘‘(صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث:5103(1971))
ترجمۃ الباب:
عبید اللہ بواسطہ حضرت نافع سید نا ابن عمر ؓ سے خبر دیتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: شکار کا کفارہ اور نذر کا گوشت تو نہ کھایا جائے البتہ ان کے علاوہ ہر قسم کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ تمتع کی قربانی سے خود بھی کھا سکتا ہے اوردوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسددنے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاءنے، انہوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی قربانی کا گوشت منیٰ کے بعد تین دن سے زیادہ نہیں کھاتے تھے، پھر آنحضرت ﷺ نے ہمیں اجازت دے دی اور فرمایا کہ کھاؤ بھی اور توشہ کے طور پر ساتھ بھی لے جاؤ، چنانچہ ہم نے کھایا اور ساتھ بھی لائے۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاءسے پوچھا کیا جابر ؓ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے، انہوں نے کہا نہیں ایسا نہیں فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جابر ؓ نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے مدینہ پہنچنے تک اس گوشت کو توشہ کے طور پررکھا، لیکن مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ عطاءنے نہیں کے بدلے ہاں کہا، شاید عطا بھول گئے ہوں پہلے نہیں کہاہو پھر یاد آیا تو ہاں کہنے لگے۔ اس حدیث سے وہ حدیث منسوخ ہے جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Juraij (RA): 'Ata' said, "I heard Jabir bin 'Abdullah saying, 'We never ate the meat of the Budn for more than three days of Mina. Later, the Prophet (ﷺ) gave us permission by saying: 'Eat and take (meat) with you. So we ate (some) and took (some) with us.' " I asked 'Ata', "Did Jabir say (that they went on eating the meat) till they reached Medina?" 'Ata' replied, "No."