Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Al-Khutba during the Days of Mina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1742.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے منیٰ کے میدان میں فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہویہ دن کون ساہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ باخبر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ دن حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ شہر کون ساہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ شہر بھی حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ مہینہ کون ساہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ مہینہ بھی عزت والا ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں حرام کی ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے کے دوران اس شہر میں ہے۔‘‘ ہشام بن غاز نے کہا: مجھے حضرت نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے خبردی کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع میں قربانی کے دن جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’یہ دن حج اکبرکاہے۔‘‘ اس کے بعد نبی ﷺ نے یہ کہنا شروع کیا: ’’اے اللہ!تو گواہ رہ، ‘‘ اور لوگوں کو الوداع کہا تو لوگوں نے کہا: یہ الوداعی حج ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا ان احادیث کے بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ ایام منیٰ میں خطبہ مشروع ہے۔ (2) ان احادیث میں اگرچہ دس ذوالحجہ کے خطبے کا ذکر ہے، تاہم دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں جب بھی ضرورت محسوس ہوئی آپ ﷺ نے خطبہ دیا جیسا کہ بعض روایات میں أوسط أيام التشريق کے الفاظ ہیں: اس سے گیارہ یا بارہ ذوالحجہ مراد ہے۔ اس خطبے میں یوم النحر، ماہ ذی الحجہ اور مکہ مکرمہ کی عظمتوں کا ذکر ہے۔ امت کو اس پر تنبیہ فرمائی تاکہ وہ انہیں فراموش نہ کر دے، پھر اس میں لوگوں کے حج سے متعلق سوال و جواب بھی ہوئے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ نے ان تعلیمات کو خطبے کا نام دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اسی دن یہ فرمایا تھا: ’’مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔‘‘ (3) حضرت ہرماس بن زیاد، حضرت ابو امامہ، حضرت معاذ اور حضرت رافع بن عمرو ؓ سے بھی روایات ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ کے دن دس ذوالحجہ کو خطبہ دیا تھا۔ اس عظیم الشان خطبے کو اساس الاسلام قرار دیا جاتا ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف صحابۂ کرام ؓ نے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری ؓ کا مقصد خطبے کی تفاصیل سے آگاہ کرنا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ قربانی کے دن بھی خطبہ دینا مسنون ہے۔ واللہ أعلم۔ (4) حضرت ابو نضرہ کی روایت میں ایام تشریق کے درمیان والے دن کا خطبہ ان الفاظ میں مروی ہے، آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! خبردار! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر ہی کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی سرخ کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو سرخ پر کوئی برتری حاصل ہے۔ اگر ہے تو صرف تقوے کی بنا پر۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟‘‘ صحابۂ کرام ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے پہنچا دیا ہے۔ (مسندأحمد:411/5) (5) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران حج میں تین خطبے مشروع ہیں: ٭ عرفہ کے دن 9 ذوالحجہ۔ ٭ نحر کے دن 10 ذوالحجہ۔ ٭ ایام تشریق کے وسط میں 12 ذوالحجہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1694
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1742
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1742
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1742
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے منیٰ کے میدان میں فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہویہ دن کون ساہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ باخبر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ دن حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ شہر کون ساہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ شہر بھی حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ مہینہ کون ساہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ مہینہ بھی عزت والا ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں حرام کی ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے کے دوران اس شہر میں ہے۔‘‘ ہشام بن غاز نے کہا: مجھے حضرت نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے خبردی کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع میں قربانی کے دن جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’یہ دن حج اکبرکاہے۔‘‘ اس کے بعد نبی ﷺ نے یہ کہنا شروع کیا: ’’اے اللہ!تو گواہ رہ، ‘‘ اور لوگوں کو الوداع کہا تو لوگوں نے کہا: یہ الوداعی حج ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا ان احادیث کے بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ ایام منیٰ میں خطبہ مشروع ہے۔ (2) ان احادیث میں اگرچہ دس ذوالحجہ کے خطبے کا ذکر ہے، تاہم دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں جب بھی ضرورت محسوس ہوئی آپ ﷺ نے خطبہ دیا جیسا کہ بعض روایات میں أوسط أيام التشريق کے الفاظ ہیں: اس سے گیارہ یا بارہ ذوالحجہ مراد ہے۔ اس خطبے میں یوم النحر، ماہ ذی الحجہ اور مکہ مکرمہ کی عظمتوں کا ذکر ہے۔ امت کو اس پر تنبیہ فرمائی تاکہ وہ انہیں فراموش نہ کر دے، پھر اس میں لوگوں کے حج سے متعلق سوال و جواب بھی ہوئے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ نے ان تعلیمات کو خطبے کا نام دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اسی دن یہ فرمایا تھا: ’’مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔‘‘ (3) حضرت ہرماس بن زیاد، حضرت ابو امامہ، حضرت معاذ اور حضرت رافع بن عمرو ؓ سے بھی روایات ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ کے دن دس ذوالحجہ کو خطبہ دیا تھا۔ اس عظیم الشان خطبے کو اساس الاسلام قرار دیا جاتا ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف صحابۂ کرام ؓ نے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری ؓ کا مقصد خطبے کی تفاصیل سے آگاہ کرنا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ قربانی کے دن بھی خطبہ دینا مسنون ہے۔ واللہ أعلم۔ (4) حضرت ابو نضرہ کی روایت میں ایام تشریق کے درمیان والے دن کا خطبہ ان الفاظ میں مروی ہے، آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! خبردار! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر ہی کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی سرخ کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو سرخ پر کوئی برتری حاصل ہے۔ اگر ہے تو صرف تقوے کی بنا پر۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟‘‘ صحابۂ کرام ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے پہنچا دیا ہے۔ (مسندأحمد:411/5) (5) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران حج میں تین خطبے مشروع ہیں: ٭ عرفہ کے دن 9 ذوالحجہ۔ ٭ نحر کے دن 10 ذوالحجہ۔ ٭ ایام تشریق کے وسط میں 12 ذوالحجہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، کہا ہم کو عاصم بن محمد بن زید نے خبر دی، انہیں ان کے باپ نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے منیٰ میں فرمایا کہ تم کو معلوم ہے ! آج کونسا دن ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ حرمت کا دن ہے اور یہ بھی تم کو معلوم ہے کہ یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حرمت کا شہر ہے اور تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ کونسا مہینہ ہے، لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ حرمت کا مہینہ ہے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا خون ! تمہارا مال اور عزت ایک دوسرے پر (ناحق ) اس طرح حرام کر دی ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے۔ ہشام بن غاز نے کہا کہ مجھے نافع نے ابن عمر ؓ کے حوالے سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع میں دسویں تاریخ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ دیکھو ! یہ (یوم النحر ) حج اکبر کا دن ہے، پھر نبی کریم ﷺ یہ فرمانے لگے کہ اے اللہ ! گواہ رہنا، آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر چونکہ لوگوں کو رخصت کیا تھا۔ (آپ سمجھ گئے کہ وفات کا زمانہ آن پہنچا ) جب سے لوگ اس کوحج کو حجۃ الودا ع کہنے لگے۔
حدیث حاشیہ:
حج اکبر حج کو کہتے ہیں اور حج اصغر عمرہ کو کہتے ہیں اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ نویں تاریخ جمعہ کو آجائے تو وہ حج اکبر ہے، اس کی سند صحیح حدیث سے کچھ نہیں، البتہ چند ضعیف حدیثیں اس حج کی زیادہ فضیلت میں وارد ہیں جس میں نویں تاریخ جمعہ کو آن پڑے۔ بعضوں نے کہا یوم الحج الأصغر نویں تاریخ کو اور یوم الحج الأکبر دسویں تاریخ کو کہتے ہیں کہ ان ہی دنوں میں آپ ﷺ پر سورۃ:﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ نازل ہوئی اور آپ ﷺ سمجھ گئے کہ اب دنیا سے روانگی قریب ہے، اب ایسے اجتماع کا موقع نہ مل سکے گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا فیه دلیل لمن یقول أن یوم الحج الأکبر هو یوم النحریعنی اس حدیث میں اس شخص کی دلیل موجود ہے جو کہتا ہے کہ حج اکبر کے دن سے مراد دسویں تاریخ ہے بس عوام میں جو مشہور ہے کہ اگر جمعہ کے دن حج واقع ہو تو اسے حج اکبر کہا جاتا ہے، یہ خیال قوی نہیں أنه نبه صلی اللہ علیه وسلم في الخطبة المذکورة علی تعظیم یوم النحر و علی تعظیم شهر ذي الحجة و علی تعظیم البلد الحرام۔یعنی آنحضرت ﷺ اس خطبہ میں یوم النحر اور ماہ ذی الحجہ اور مکۃ المکرمہ کی عظمتوں پر تنبیہ فرمائی کہ امت ان اشیاء مقدسہ کو یاد رکھے اور جو نصائح و وصایا آپ ﷺ دئیے جارہے ہیں امت ان کو تاابد فراموش نہ کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): At Mina, the Prophet (ﷺ) said, "Do you know what is the day today?" The people replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know it better." He said, "It is the forbidden (sacred) day. And do you know what town is this?" They replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know it better." He said, "This is the forbidden (Sacred) town (Makkah). And do you know which month is this?" The people replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know it better." He said, "This is the forbidden (sacred) month." The Prophet (ﷺ) added, "No doubt, Allah made your blood, your properties, and your honor sacred to one another like the sanctity of this day of yours in this month of yours in this town of yours." Narrated Ibn 'Umar (RA): On the Day of Nahr (10th of Dhul-Hijja), the Prophet (ﷺ) stood in between the Jamrat during his Hajj which he performed (as in the previous Hadith) and said, "This is the greatest Day (i.e. 10th of Dhul-Hijjah)." The Prophet (ﷺ) started saying repeatedly, "O Allah! Be Witness (I have conveyed Your Message)." He then bade the people farewell. The people said, "This is Hajjat-al-Wada)."