Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To do the Rami of the Jimar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جابر ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے دسویں ذی الحجہ کو چاشت کے وقت کنکریاں ماری تھیں اور اس کے بعد کی تاریخوں میں سورج ڈھل جانے پر۔
1746.
حضرت وبرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا کہ میں جمرات کو کس وقت کنکریاں ماروں؟توانھوں نے جواب دیا کہ جب تیرا امیر رمی کرے تو اس وقت تو بھی رمی کرلے۔ میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، انھوں نے فرمایا: ہم انتظار کیا کرتے تھے۔ جب زوال آفتاب ہوجاتا تو ہم کنکریاں مارتے تھے۔
تشریح:
(1) تینوں جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں، البتہ دس ذوالحجہ کو صرف جمرۂ عقبہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں جو مکہ کی طرف منیٰ کی سرحد پر ہے۔ اس کے بعد گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو تینوں جمرات کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے جمرۂ ادنیٰ کو جو منیٰ سے مکہ جاتے ہوئے پہلے آتا ہے، پھر جمرۂ وسطیٰ کو جو اس کے بعد اور جمرۂ عقبہ سے پہلے ہے، اس کے بعد جمرۂ عقبہ کو جو آخر میں ہے۔ یہ آخری جمرہ دوسرے جمرات کے مقابلے میں چار امتیازی حیثیتوں کا حامل ہے: ٭ اسے دس تاریخ کو رمی کی جاتی ہے۔ ٭ رمی کے بعد اس کے پاس کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ ٭ اسے دس تاریخ کو چاشت کے وقت رمی کرنی چاہیے۔ ٭ اسے وادی کے نشیب سے رمی کی جاتی ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ مبادا وبرہ بن عبدالرحمٰن اپنے امیر کی مخالفت کرے، اس لیے اسے تنبیہ فرمائی کہ جب تیرا امیر رمی کرے تو اس وقت تو بھی رمی کر کہ امیر کی مخالفت سے کوئی نقصان نہ ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا: اگر میرا امیر تاخیر سے رمی کرے تو میں کیا کروں؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے حدیث بیان کر دی کہ ہم رمی کرنے کے لیے زوالِ آفتاب کا انتظار کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایام تشریق میں رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے۔ (فتح الباري:732/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1698
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1746
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1746
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1746
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
ایام تشریق میں کنکریاں مارنے کا وقت زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک ہے جیسا کہ مذکورہ روایت میں صراحت ہے، اسے امام مسلم نے صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218) کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اور جابر ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے دسویں ذی الحجہ کو چاشت کے وقت کنکریاں ماری تھیں اور اس کے بعد کی تاریخوں میں سورج ڈھل جانے پر۔
حدیث ترجمہ:
حضرت وبرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا کہ میں جمرات کو کس وقت کنکریاں ماروں؟توانھوں نے جواب دیا کہ جب تیرا امیر رمی کرے تو اس وقت تو بھی رمی کرلے۔ میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، انھوں نے فرمایا: ہم انتظار کیا کرتے تھے۔ جب زوال آفتاب ہوجاتا تو ہم کنکریاں مارتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) تینوں جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں، البتہ دس ذوالحجہ کو صرف جمرۂ عقبہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں جو مکہ کی طرف منیٰ کی سرحد پر ہے۔ اس کے بعد گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو تینوں جمرات کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے جمرۂ ادنیٰ کو جو منیٰ سے مکہ جاتے ہوئے پہلے آتا ہے، پھر جمرۂ وسطیٰ کو جو اس کے بعد اور جمرۂ عقبہ سے پہلے ہے، اس کے بعد جمرۂ عقبہ کو جو آخر میں ہے۔ یہ آخری جمرہ دوسرے جمرات کے مقابلے میں چار امتیازی حیثیتوں کا حامل ہے: ٭ اسے دس تاریخ کو رمی کی جاتی ہے۔ ٭ رمی کے بعد اس کے پاس کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ ٭ اسے دس تاریخ کو چاشت کے وقت رمی کرنی چاہیے۔ ٭ اسے وادی کے نشیب سے رمی کی جاتی ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ مبادا وبرہ بن عبدالرحمٰن اپنے امیر کی مخالفت کرے، اس لیے اسے تنبیہ فرمائی کہ جب تیرا امیر رمی کرے تو اس وقت تو بھی رمی کر کہ امیر کی مخالفت سے کوئی نقصان نہ ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا: اگر میرا امیر تاخیر سے رمی کرے تو میں کیا کروں؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے حدیث بیان کر دی کہ ہم رمی کرنے کے لیے زوالِ آفتاب کا انتظار کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایام تشریق میں رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے۔ (فتح الباري:732/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت جابر ؓنے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن چاشت کے وقت اور اس کے بعد باقی ایام میں زوال آفتاب کے بعد کنکریاں ماریں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے وبرہ نے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ میں کنکریاں کس وقت ماروں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تمہارا امام مارے تو تم بھی مارو، لیکن دوبارہ میں نے ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور جب سورج ڈھل جاتا تو کنکریاں مارتے۔
حدیث حاشیہ:
افضل وقت کنکریاں مارنے کا یہی ہے کہ یوم النحر کو چاشت کے وقت مارے، اور جائز ہے دسویں شب کی آدھی رات کے بعد سے، اور غروب آفتاب تک دسویں تاریخ کو اس کا آخری وقت ہے اور گیارہویں یا بارہویں کو زوال کے بعدظہر کی نماز سے پہلے مارنا افضل ہے، کنکریاں سات سے کم نہ ہوں، جمہور علماءکا یہی قول ہے: و فیه دلیل علی أن السنة أن یرمی الجمار في غیر یوم الأضحیٰ بعد الزوال و به قال الجمهور۔(فتح الباري)یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ دسویں تاریخ کے بعد سنت یہ ہے کہ رمی جمار زوال کے بعد ہو اور جمہور کا یہی فتویٰ ہے۔ جب امام مارے تم بھی مارو، یہ ہدایت اس لیے فرمائی تاکہ امرائے وقت کی مخالفت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ پہنچ سکے، اگر امرائے جور ہوں تو ایسے احکام میں مجبوراً ان کی اطاعت کرنی ہے جیسا کہ نماز کے لیے فرمایا کہ ظالم امیر اگر دیر سے پڑھیں تو ان کے ساتھ بھی ادا کرلو اور ان کو نفل قرار دے لو، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے اس دور میں حجاج بن یوسف جیسے سفاک ظالم کا زمانہ تھا اس بنا پر آپ ؓ نے ایسا فرمایا، نیک عادل امراءکی اطاعت نیک کاموں میں بہرحال فرض ہے اور موجب ثواب ہے اور یہ چیز امراء ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ نیک امر میں ادنی سے ادنی آدمی کی بھی اطاعت لازم ہے۔ و إن کان عبداً حبشیا کا یہی مطلب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Wabra (RA): I asked Ibn 'Umar (RA), "When should I do the Rami of the Jimar?" He replied, "When your leader does that." I asked him again the same question. He replied, "We used to wait till the sun declined and then we would do the Rami (i.e. on the 11th and 12th of Dhul-Hijja)."