باب : زمانہ حج میں تجارت کرنا اور جاہلیت کے بازاروں میں خرید و فروخت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Trading during the time of Hajj)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1770.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ذوالمجاز اور عکاز دور جاہلیت میں لوگوں کی منڈیاں تھیں۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے وہاں خریدوفروخت کرنے کو اچھا خیال نہ کیا تاآنکہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:’’تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ حج کے زمانے میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ ‘‘
تشریح:
(1) جاہلیت کے زمانے میں چار منڈیاں بہت مشہور تھیں: ٭ ذوالمجاز: میدان عرفہ سے ایک میل کے فاصلے پر بازار لگایا جاتا تھا۔ ٭ مجنہ: مکہ کے نشیب میں مر الظہران کے پاس اس کا اہتمام ہوتا تھا۔ ٭ عُکاظ: نخلہ اور طائف کے درمیان فتق مقام پر یہ منڈی لگتی تھی۔ ٭ حباشہ: مکہ سے یمن کے طرف دیار بارق میں یہ بازار لگتا تھا۔ چونکہ ذوالمجاز اور عکاظ حج کے دنوں میں لگائے جاتے تھے، اس لیے حدیث میں ان کا بیان ہوا ہے۔ لوگ ان دنوں خریدوفروخت ناپسند کرتے تھے کیونکہ یہ دن ذکر الٰہی کے لیے مخصوص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حدیث میں مذکورہ آیت کے ذریعے سے ان دنوں خریدفروخت اور تجارت کو جائز قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:749/3 ۔750) (2) حدیث کے آخر میں جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ مذکورہ الفاظ سے شاذ قراءت ہے جو ابن عباس ؓ سے منقول ہے، البتہ قراءت متواتر میں (في مواسم الحج) کے الفاظ نہیں ہیں اور یہی بات راجح ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1721
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1770
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1770
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1770
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ذوالمجاز اور عکاز دور جاہلیت میں لوگوں کی منڈیاں تھیں۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے وہاں خریدوفروخت کرنے کو اچھا خیال نہ کیا تاآنکہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:’’تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ حج کے زمانے میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) جاہلیت کے زمانے میں چار منڈیاں بہت مشہور تھیں: ٭ ذوالمجاز: میدان عرفہ سے ایک میل کے فاصلے پر بازار لگایا جاتا تھا۔ ٭ مجنہ: مکہ کے نشیب میں مر الظہران کے پاس اس کا اہتمام ہوتا تھا۔ ٭ عُکاظ: نخلہ اور طائف کے درمیان فتق مقام پر یہ منڈی لگتی تھی۔ ٭ حباشہ: مکہ سے یمن کے طرف دیار بارق میں یہ بازار لگتا تھا۔ چونکہ ذوالمجاز اور عکاظ حج کے دنوں میں لگائے جاتے تھے، اس لیے حدیث میں ان کا بیان ہوا ہے۔ لوگ ان دنوں خریدوفروخت ناپسند کرتے تھے کیونکہ یہ دن ذکر الٰہی کے لیے مخصوص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حدیث میں مذکورہ آیت کے ذریعے سے ان دنوں خریدفروخت اور تجارت کو جائز قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:749/3 ۔750) (2) حدیث کے آخر میں جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ مذکورہ الفاظ سے شاذ قراءت ہے جو ابن عباس ؓ سے منقول ہے، البتہ قراءت متواتر میں (في مواسم الحج) کے الفاظ نہیں ہیں اور یہی بات راجح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ہیثم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا او ران سے حضرت عبدللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ذو المجاز اور عکاظ عہد جاہلیت کے بازار تھے جب اسلام آیا تو گویا لوگوں نے (جاہلیت کے ان بازاروںمیں ) خرید و فروخت کو برا خیال کیا اس پر (سورہ بقرۃ کی ) یہ آیت نازل ہوئی ’’تمہارے لیے کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کے فضل کی تلاش کرو‘‘۔ یہ حج کے زمانہ کےلیے تھا۔
حدیث حاشیہ:
جاہلیت کے زمانہ میں چار منڈیاں مشہور تھیں عکاظ، ذو المجاز، مجنہ اور حباشہ، اسلام کے بعد بس حج کے دنوں میں ان منڈیوں میں خرید و فروخت اور تجارت جائز رہی۔ اللہ نے خود قرآن شریف میں اس کا جواز اتارا ہے کہ تجارت کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کو اپنا فضل قرار دیا۔ جیسا کہ آیت مذکورہ سے واضح ہے۔ تجارت کرنا اسلاف کا بہترین شغل تھا۔ جس کے ذریعہ وہ اطراف عالم میں پہنچے، مگر افسوس کہ اب مسلمانوں نے اس سے توجہ ہٹالی جس کا نتیجہ افلاس و ذلت کی شکل میں ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn ' Abbas : Dhul-Majaz and 'Ukaz were the markets of the people during the pre-lslamic period of ignorance. When the people embraced Islam, they disliked to do bargaining there till the following Holy Verses were revealed:-- There is no harm for you If you seek of the bounty Of your Lord (during Hajj by trading, etc.) (2.198)