Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: How many times did the Prophet (saws) perform 'Umra ?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1781.
ابو اسحاق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت مسروق، حضرت عطاء اورحضرت مجاہد ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ میں عمرہ کیا۔ انھوں نے کہا: میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے سنا، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے ذوالقعدہ میں دو عمرے کیے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے رسول اللہ ﷺ کے عمروں کی تعداد کے متعلق حضرت عائشہ، حضرت ابن عمر، حضرت انس اور حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی احادیث پیش کی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں چار عمرے کیے ہیں: پہلا عمرہ چھ ہجری میں ادا کیا جبکہ مشرکین نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا، چنانچہ آپ نے اور صحابۂ کرام ؓ نے مقام حدیبیہ پر ہی احرام کھول دیا تھا۔ اسے بھی عمرہ شمار کیا جاتا ہے۔ دوسرا عمرہ سات ہجری میں ادا فرمایا اور وہ ماہ ذوالقعدہ میں تھا۔ چونکہ یہ عمرہ قریش سے صلح اور ان سے ایک فیصلے کے نتیجے میں ہوا تھا، اس لیے اسے عمرۂ قضا کہتے ہیں۔ یہ نام اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اسے بطور قضا ادا کیا تھا جیسا کہ عامۃ الناس میں مشہور ہے۔ تیسرا عمرہ آٹھ ہجری کو ذوالقعدہ میں کیا جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور غزوۂ حنین سے ملنے والا مال غنیمت تقسیم کیا گیا۔ اسے عمرۂ جعرانه کہا جاتا ہے۔ چوتھا عمرہ آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اشتباہ یا نسیان ہو گیا، اس لیے انہوں نے فرمایا کہ ایک عمرہ ماہ رجب میں ادا کیا، اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے تردید کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی بات سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے ہاں یا نہیں میں کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خاموش ہو گئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3036(1253)) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف سے اتفاق کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ ادا نہیں فرمایا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کے مطابق آپ نے دو عمرے ادا کیے ہیں۔ دراصل راوی نے وہ عمرہ جو حج کے ساتھ ادا کیا تھا اور جس عمرے سے رسول اللہ ﷺ کو روک دیا گیا تھا، ان دونوں کو شمار نہیں کیا۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین عمرے ماہ ذوالقعدہ میں کیے تھے اور چوتھا عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ ماہ ذوالحجہ میں ادا کیا تھا۔ حضرت مجاہد سے منصور کی روایت کے مطابق جب حضرت ابن عمر ؓ سے سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کیے تھے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث: (1775) میں ہے لیکن ابو اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو عمرے کیے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے تردید فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے عمرے کے علاوہ تین عمرے کیے ہیں جیسا کہ سنن ابی داود میں ہے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1992) ان روایات میں تطبیق یوں ہے: ممکن ہے کہ پہلے حضرت ابن عمر ؓ سے تعداد کے متعلق سوال ہوا ہو، پھر ان سے مہینے کے متعلق دریافت کیا گیا ہو جیسا کہ منصور کی روایت میں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کے متنبہ کرنے پر انہوں نے فرمایا: آپ نے چار عمرے کیے ہیں لیکن کس مہینے میں کیے ہیں اس کے متعلق سہو ہو گیا ہو جیسا کہ مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کس مہینے میں عمرہ کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ماہ رجب میں، جس کی حضرت عائشہ ؓ نے تردید فرمائی ہے۔ (مسندأحمد:143/2) (2) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے چاشت کی نماز کو بدعت کہا ہے، شاید انہیں معلوم نہ ہو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت ادا کی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے نماز چاشت مسجد کے اندر اجتماعی صورت میں ادا کرنے کو بدعت کہا ہو۔ بہرحال نماز چاشت رسول اللہ ﷺ نے خود بھی پڑھی ہے اور دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔ بإذن الله
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1732
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1781
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1781
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1781
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
تمہید باب
کسی روایت میں چار عمرے مذکور ہیں، کسی میں دو۔ ان میں جمع یوں کیاگیا ہے کہ اخیر کی روایت میں وہ عمرہ جو آپ ﷺ نے حج کے ساتھ کیا تھا۔ اسی طرح وہ عمرہ جس سے آپ ﷺ روکے گئے تھے شمار نہیں کیا۔ سعید بن منصور نے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے تین عمرے کئے دو تو ذی قعدہ میں اور ایک شوال میں اور دوسری راویتوں میں یہ ہے کہ آپﷺ نے تینوں عمرے ذی قعدہ میں کئے ہیں۔
ابو اسحاق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت مسروق، حضرت عطاء اورحضرت مجاہد ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ میں عمرہ کیا۔ انھوں نے کہا: میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے سنا، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے ذوالقعدہ میں دو عمرے کیے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے رسول اللہ ﷺ کے عمروں کی تعداد کے متعلق حضرت عائشہ، حضرت ابن عمر، حضرت انس اور حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی احادیث پیش کی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں چار عمرے کیے ہیں: پہلا عمرہ چھ ہجری میں ادا کیا جبکہ مشرکین نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا، چنانچہ آپ نے اور صحابۂ کرام ؓ نے مقام حدیبیہ پر ہی احرام کھول دیا تھا۔ اسے بھی عمرہ شمار کیا جاتا ہے۔ دوسرا عمرہ سات ہجری میں ادا فرمایا اور وہ ماہ ذوالقعدہ میں تھا۔ چونکہ یہ عمرہ قریش سے صلح اور ان سے ایک فیصلے کے نتیجے میں ہوا تھا، اس لیے اسے عمرۂ قضا کہتے ہیں۔ یہ نام اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اسے بطور قضا ادا کیا تھا جیسا کہ عامۃ الناس میں مشہور ہے۔ تیسرا عمرہ آٹھ ہجری کو ذوالقعدہ میں کیا جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور غزوۂ حنین سے ملنے والا مال غنیمت تقسیم کیا گیا۔ اسے عمرۂ جعرانه کہا جاتا ہے۔ چوتھا عمرہ آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اشتباہ یا نسیان ہو گیا، اس لیے انہوں نے فرمایا کہ ایک عمرہ ماہ رجب میں ادا کیا، اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے تردید کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی بات سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے ہاں یا نہیں میں کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خاموش ہو گئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3036(1253)) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف سے اتفاق کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ ادا نہیں فرمایا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کے مطابق آپ نے دو عمرے ادا کیے ہیں۔ دراصل راوی نے وہ عمرہ جو حج کے ساتھ ادا کیا تھا اور جس عمرے سے رسول اللہ ﷺ کو روک دیا گیا تھا، ان دونوں کو شمار نہیں کیا۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین عمرے ماہ ذوالقعدہ میں کیے تھے اور چوتھا عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ ماہ ذوالحجہ میں ادا کیا تھا۔ حضرت مجاہد سے منصور کی روایت کے مطابق جب حضرت ابن عمر ؓ سے سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کیے تھے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث: (1775) میں ہے لیکن ابو اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو عمرے کیے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے تردید فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے عمرے کے علاوہ تین عمرے کیے ہیں جیسا کہ سنن ابی داود میں ہے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1992) ان روایات میں تطبیق یوں ہے: ممکن ہے کہ پہلے حضرت ابن عمر ؓ سے تعداد کے متعلق سوال ہوا ہو، پھر ان سے مہینے کے متعلق دریافت کیا گیا ہو جیسا کہ منصور کی روایت میں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کے متنبہ کرنے پر انہوں نے فرمایا: آپ نے چار عمرے کیے ہیں لیکن کس مہینے میں کیے ہیں اس کے متعلق سہو ہو گیا ہو جیسا کہ مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کس مہینے میں عمرہ کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ماہ رجب میں، جس کی حضرت عائشہ ؓ نے تردید فرمائی ہے۔ (مسندأحمد:143/2) (2) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے چاشت کی نماز کو بدعت کہا ہے، شاید انہیں معلوم نہ ہو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت ادا کی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے نماز چاشت مسجد کے اندر اجتماعی صورت میں ادا کرنے کو بدعت کہا ہو۔ بہرحال نماز چاشت رسول اللہ ﷺ نے خود بھی پڑھی ہے اور دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔ بإذن الله
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابواسحق نے بیان کیا کہ میں نے مسروق، عطاءاور مجاہد سے پوچھا تو ان سب حضرات نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حج سے پہلے ذی قعدہ ہی میں عمرے کئے تھے اور انہوں نے بیان کیا کہ میں نے براءبن عازب ؓ سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ماہ ذی قعدہ میں حج سے پہلے دو عمرے کئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Ishaq (RA): I asked Masruq, 'Ata' and Mujahid (about the 'Umra of Allah's Apostle) (ﷺ) . They said, "Allah's Apostle (ﷺ) had performed 'Umra in Dhi-l-Qa'da before he performed Hajj." I heard Al-Bara' bin ' Azib (RA) saying, "Allah's Apostle (ﷺ) had performed 'Umra in Dhi-l-Qa'da twice before he performed Hajj."