باب : محصب کی رات عمرہ کرنا یا اس کے علاوہ کسی دن بھی عمرہ کرنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: 'Umra on the night of departure from Mina after Hajj and on other nights)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1783.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اس وقت روانہ ہوئے جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوچکا تھا۔ آپ نے ہمیں فرمایا: ’’تم میں سے جو حج کا احرام باندھنا چاہتا ہے۔ وہ حج کا احرام باندھ لے اور جو عمرے کا احرام باندھنا پسند کرتا ہے وہ عمرے کا احرام باندھ لے۔ اگر میں نے قربانی ساتھ نہ لی ہوتی تو میں بھی عمرے کا احرام باندھتا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم میں سے بعض نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کا احرام باندھ لیا اور میں ان لوگوں سے تھی جنھوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ عرفہ کا دن آیا تو مجھے حیض نے آلیا۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ’’عمرہ چھوڑ کر اپنے سر کے بال کھول دو اور کنگھی کرلو پھر حج کا احرام باندھ لو۔‘‘ جب محصب کی رات تھی تو آپ نے میرے ساتھ حضرت عبدالرحمان ؓ کو تنعیم بھیجا تو میں نے گزشتہ عمرے کے بجائے اور عمرے کا احرام باندھ لیا۔
تشریح:
(1) ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ کو رات کے وقت رسول اللہ ﷺ نے تکمیل حج کے بعد مدینہ طیبہ کی طرف کوچ فرمایا تھا۔ چونکہ آپ کا پڑاؤ وادئ محصب میں تھا، اس لیے کوچ کی رات کو لیلۃ الحصبہ یا لیلۂ محصب کہا جاتا ہے۔ اس رات بعض ائمہ کرام نے عمرے کی ادائیگی کو مکروہ خیال کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اس رات یا اس کے علاوہ دیگر اوقات میں عمرہ کرنا جائز ہے کیونکہ حج کی تکمیل ہو چکی ہے، اس لیے عمرہ کرنے پر پابندی لگانا بے بنیاد ہے۔ (2) ابن بطال فرماتے ہیں: اس عنوان کا فقہی مسئلہ یہ ہے کہ حاجی جب اعمال حج مکمل کر لیتا ہے تو ایام تشریق کے ختم ہوتے ہی عمرہ کر سکتا ہے جیسا کہ حدیث عائشہ سے واضح ہوتا ہے۔ (فتح الباري:764/3) البتہ ایام تشریق میں عمرہ کرنے کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ان دنوں میں عمرہ کرنا درست نہیں کیونکہ ابھی اعمال حج مکمل نہیں ہوئے، نیز رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے عمرے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اگر ایام تشریق میں عمرہ کرنا جائز ہوتا تو آپ ان ایام میں انہیں عمرہ کرنے کا حکم فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایام حج کے فورا بعد انہیں عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ (عمدةالقاري:416/7)واللہ أعلم۔ (3) ہمارے نزدیک بھی یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق میں عمرہ کرنا حاجی کے لیے درست نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اعمال حج کی ادائیگی متاثر ہو گی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1734
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1783
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1783
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1783
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اس وقت روانہ ہوئے جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوچکا تھا۔ آپ نے ہمیں فرمایا: ’’تم میں سے جو حج کا احرام باندھنا چاہتا ہے۔ وہ حج کا احرام باندھ لے اور جو عمرے کا احرام باندھنا پسند کرتا ہے وہ عمرے کا احرام باندھ لے۔ اگر میں نے قربانی ساتھ نہ لی ہوتی تو میں بھی عمرے کا احرام باندھتا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم میں سے بعض نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کا احرام باندھ لیا اور میں ان لوگوں سے تھی جنھوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ عرفہ کا دن آیا تو مجھے حیض نے آلیا۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ’’عمرہ چھوڑ کر اپنے سر کے بال کھول دو اور کنگھی کرلو پھر حج کا احرام باندھ لو۔‘‘ جب محصب کی رات تھی تو آپ نے میرے ساتھ حضرت عبدالرحمان ؓ کو تنعیم بھیجا تو میں نے گزشتہ عمرے کے بجائے اور عمرے کا احرام باندھ لیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ کو رات کے وقت رسول اللہ ﷺ نے تکمیل حج کے بعد مدینہ طیبہ کی طرف کوچ فرمایا تھا۔ چونکہ آپ کا پڑاؤ وادئ محصب میں تھا، اس لیے کوچ کی رات کو لیلۃ الحصبہ یا لیلۂ محصب کہا جاتا ہے۔ اس رات بعض ائمہ کرام نے عمرے کی ادائیگی کو مکروہ خیال کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اس رات یا اس کے علاوہ دیگر اوقات میں عمرہ کرنا جائز ہے کیونکہ حج کی تکمیل ہو چکی ہے، اس لیے عمرہ کرنے پر پابندی لگانا بے بنیاد ہے۔ (2) ابن بطال فرماتے ہیں: اس عنوان کا فقہی مسئلہ یہ ہے کہ حاجی جب اعمال حج مکمل کر لیتا ہے تو ایام تشریق کے ختم ہوتے ہی عمرہ کر سکتا ہے جیسا کہ حدیث عائشہ سے واضح ہوتا ہے۔ (فتح الباري:764/3) البتہ ایام تشریق میں عمرہ کرنے کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ان دنوں میں عمرہ کرنا درست نہیں کیونکہ ابھی اعمال حج مکمل نہیں ہوئے، نیز رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے عمرے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اگر ایام تشریق میں عمرہ کرنا جائز ہوتا تو آپ ان ایام میں انہیں عمرہ کرنے کا حکم فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایام حج کے فورا بعد انہیں عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ (عمدةالقاري:416/7)واللہ أعلم۔ (3) ہمارے نزدیک بھی یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق میں عمرہ کرنا حاجی کے لیے درست نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اعمال حج کی ادائیگی متاثر ہو گی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سےحضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا، کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے نکلے تو ذی الحجہ کا چاند نکلنے والا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی حج کا احرام باندھنا چاہتا ہے تو وہ حج کا باندھ لے اور اگر کوئی عمرہ کا باندھنا چاہتا ہے تو وہ عمرہ کا باندھ لے۔ اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم میں بعض نے تو عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج کا احرام باندھا۔ میں بھی ان لوگوں میں تھی جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، لیکن عرفہ کا دن آیا تو میں اس وقت حائضہ تھی، چنانچہ میں نے اس کی حضور ﷺ سے شکایت کی آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر عمرہ چھوڑ دے اور سر کھول دے اوراس میں کنگھا کرلے پھر حج کا احرام باندھا لینا۔ (میں نے ایسا ہی کیا ) جب محصب کے قیام کی رات آئی تو حضور ﷺ نے عبدالرحمن کو میرے ساتھ تنعیم بھیجا، وہاں سے میں نے عمرہ کا احرام اپنے اس عمرہ کے بدلہ میں باندھا (جس کو توڑ ڈالا تھا )
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): We set out along with Allah's Apostle (ﷺ) shortly before the appearance of the new moon (crescent) of the month of Dhi-l-Hijja and he said to us, "Whoever wants to assume Ihram for Hajj may do so; and whoever wants to assume Ihram for 'Umra may do so. Hadn't I brought the Hadi (animal for sacrificing) (with me), I would have assumed Ihram for 'Umra." ( 'Aisha (RA) added,): So some of us assumed Ihram for 'Umra while the others for Hajj. I was amongst those who assumed Ihram for 'Umra. The day of 'Arafat approached and I was still menstruating. I complained to the Prophet (ﷺ) (about that) and he said, "Abandon your 'Umra, undo and comb your hair, and assume Ihram for Hajj;." When it was the night of Hasba, he sent 'Abdur Rahman with me to At-Tan'im and I assumed Ihram for 'Umra (and performed it) in lieu of my missed 'Umra.