Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: 'Umra from At-Tan'im)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1785.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نےحج کا احرام باندھا۔ نبی کریم ﷺ اورحضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے ساتھ قربانی کاجانور نہیں تھا۔ حضرت علی ؓ یمن سے تشریف لائے اور ان کے ساتھ ہدی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اسی شرط کے ساتھ احرام باندھا جس سے رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ا پنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس احرام حج کو عمرہ میں بدل لیں۔ بیت اللہ کا طواف کریں اور بال کٹوا کر حلال ہوجائیں ہاں!جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ احرام نہ کھولے۔ لوگوں میں سے کچھ نے کہا کہ ہم جب منیٰ جائیں گے تو ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ نبی کریم ﷺ کویہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوجاتا جو بعد میں ہوا ہے تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‘‘ اتفاق یہ ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کو اس دوران میں حیض آگیا۔ انھوں نے بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے تمام ارکان پورے کرلیے۔ جب وہ حیض سے پاک ہوگئیں اور بیت اللہ کا طواف کرلیا تو عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ سب حج اور عمرہ کرکے واپس جارہے ہیں اور میں صرف حج کرکے واپس جاؤں گی؟آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ تنعیم جائیں، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے حج کے بعد ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کیا۔ حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اس وقت ملاقات کی جب آپ جمرہ عقبہ کو رمی کررہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ایسا کرنا صرف آپ کے لیے ہے؟آپ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ ‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں بھی حضرت عائشہ ؓ کے مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔ (2) دور جاہلیت میں أشهر الحج (حج کے مہینوں) کے دوران میں عمرہ کرنا بہت بڑا گناہ خیال کیا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اور حضرت عائشہ ؓ کو ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرایا تاکہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ ہو۔ حضرت سراقہ ؓ نے بھی اس کے متعلق سوال کیا تھا کہ ایسا کرنا صرف آپ کے ساتھ خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: آئندہ بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ (3) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور مالدار حضرات ؓ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور صرف رسول الله ﷺ اور حضرت طلحہ ؓ کے ساتھ تھا۔ ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ہر ایک نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے، جس چیز کو اس نے دیکھا اسے ذکر کر دیا۔ (فتح الباري:767/3) واضح رہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو تین ذوالحجہ ہفتے کے دن حیض شروع ہوا اور 10 ذوالحجہ ہفتے کے دن ختم ہوا، جب عرفات سے واپسی پر منیٰ میں پڑاؤ کیا تو انہوں نے غسل حیض کیا۔ (فتح الباري:767/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1736
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1785
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1785
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1785
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
تمہید باب
یہ خاص حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺکے حکم سے کیا تھا باقی کسی صحابی سے منقول نہیں کہ اس نے عمرہ کا احرام تنعیم سے باندھا ہو نہ آنحضرت ﷺ نے کبھی ایسا کیا، امام ابن قیم نے زاد المعاد میں ایسا ہی کہا ہے۔ حافظ نے کہا کہ جب حضرت عائشہ ؓ نے بحکم نبوی ایسا کیا تواس کا مشروع ہونا ثابت ہو گیا اگرچہ اس میں شک نہیں کہ عمرہ کے لیے بھی خاص اپنے ملک سے سفر کرکے جانا افضل اور اعلیٰ ہے اور سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ ہر سال ایک عمرہ سے زیادہ کرسکتے ہیں یا نہیں، امام مالک نے ایک سے زیادہ کرنا مکروہ جانا ہے اور جمہور علماء نے ان کا خلاف کیا اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عرفہ اور یوم النحر اور ایام تشریق میں عمرہ کرنا مکروہ رکھا ہے۔(وحیدی)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نےحج کا احرام باندھا۔ نبی کریم ﷺ اورحضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے ساتھ قربانی کاجانور نہیں تھا۔ حضرت علی ؓ یمن سے تشریف لائے اور ان کے ساتھ ہدی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اسی شرط کے ساتھ احرام باندھا جس سے رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ا پنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس احرام حج کو عمرہ میں بدل لیں۔ بیت اللہ کا طواف کریں اور بال کٹوا کر حلال ہوجائیں ہاں!جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ احرام نہ کھولے۔ لوگوں میں سے کچھ نے کہا کہ ہم جب منیٰ جائیں گے تو ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ نبی کریم ﷺ کویہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوجاتا جو بعد میں ہوا ہے تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‘‘ اتفاق یہ ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کو اس دوران میں حیض آگیا۔ انھوں نے بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے تمام ارکان پورے کرلیے۔ جب وہ حیض سے پاک ہوگئیں اور بیت اللہ کا طواف کرلیا تو عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ سب حج اور عمرہ کرکے واپس جارہے ہیں اور میں صرف حج کرکے واپس جاؤں گی؟آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ تنعیم جائیں، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے حج کے بعد ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کیا۔ حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اس وقت ملاقات کی جب آپ جمرہ عقبہ کو رمی کررہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ایسا کرنا صرف آپ کے لیے ہے؟آپ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں بھی حضرت عائشہ ؓ کے مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔ (2) دور جاہلیت میں أشهر الحج (حج کے مہینوں) کے دوران میں عمرہ کرنا بہت بڑا گناہ خیال کیا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اور حضرت عائشہ ؓ کو ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرایا تاکہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ ہو۔ حضرت سراقہ ؓ نے بھی اس کے متعلق سوال کیا تھا کہ ایسا کرنا صرف آپ کے ساتھ خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: آئندہ بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ (3) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور مالدار حضرات ؓ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور صرف رسول الله ﷺ اور حضرت طلحہ ؓ کے ساتھ تھا۔ ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ہر ایک نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے، جس چیز کو اس نے دیکھا اسے ذکر کر دیا۔ (فتح الباري:767/3) واضح رہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو تین ذوالحجہ ہفتے کے دن حیض شروع ہوا اور 10 ذوالحجہ ہفتے کے دن ختم ہوا، جب عرفات سے واپسی پر منیٰ میں پڑاؤ کیا تو انہوں نے غسل حیض کیا۔ (فتح الباري:767/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے، ان سے حبیب معلم نے، ان سے عطاءبن ابی رباح نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا تھا اورآنحضرت ﷺ اور طلحہ ؓ کے سوا قربانی کسی کے پاس نہیں تھی۔ ان ہی دنوں میں حضرت علی ؓ یمن سے آئے تو ان کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز کا احرام رسول اللہ ﷺ نے باندھا ہے میرا بھی احرام وہی ہے، آنحضرت ﷺ نے اپنے اصحاب کو (مکہ میں پہنچ کر ) اس کی اجازت دے دی تھی کہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کردیں اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرکے بال ترشوا لیں اور احرام کھول دیں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم منیٰ سے حج کے لیے اس طرح سے جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ یہ با ت رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو بات اب ہوئی اگر پہلے سے معلوم ہوتی تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو (افعال عمرہ ادا کرنے کے بعد ) میں بھی احرام کھول دیتا۔ عائشہ ؓ (اس حج میں ) حائضہ ہو گئی تھیں اس لیے انہوں نے اگرچہ تمام مناسک ادا کئے لیکن بیت اللہ کا طو اف نہیں کیا۔ پھر جب وہ پاک ہو گئیں اور طواف کر لیا تو عرض کی یا رسول اللہ ! سب لوگ حج اور عمرہ دونوں کرکے واپس ہو رہے ہیں لیکن میں صرف حج کرسکی ہوں، آپ ﷺ نے اس پر عبدالرحمن بن ابوبکر ؓ سے کہا کہ انہیں ہمراہ لے کر تنعیم جائیں اور عمرہ کرا لائیں، یہ عمرہ حج کے بعد ذی الحجہ کے ہی مہینہ میں ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ جب جمرہ عقبہ کی رمی کر رہے تھے تو سراقہ بن مالک بن جعشم آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا یہ (عمرہ اورحج کے درمیان احرام کھول دینا ) صرف آپ ہی کے لیے ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔
حدیث حاشیہ:
یزید کی روایت میں یوں ہے کہ کیا یہ حکم خاص ہمارے لیے ہے، امام مسلم کی روایت میں یوں ہے سراقہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ کیا یہ حکم خاص اسی سال کے لیے ہے۔ آپ نے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا اور دوبارہ فرمایا عمرہ حج میں ہمیشہ کے لیے شریک ہو گیا۔ نووی نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا درست ہوا۔ اور جاہلیت کا قاعدہ ٹوٹ گیا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا مکروہ ہے۔ بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ قران یعنی حج اور عمرے کو جمع کرنا درست ہوا اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ تمتع، جس میں قربانی ہے وہ یہ ہے کہ حج سے پہلے عمرہ کرے اور جو لوگ حج کے مہینوں میں سارے ذی الحجہ کو شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذی الحجہ میں حج کے بعد بھی عمرہ کرے تو وہ بھی تمتع ہے اور اس میں قربانی یا روزے واجب نہیں، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی تھی۔ جیسے ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے قربان کی اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے قربانی دی اور شاید حضرت عائشہ ؓ کو اس کی خبر نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) and his companions assumed Ihram for Hajj and none except the Prophet (ﷺ) and Talha had the Hadi with them. 'Ali had come from Yemen and he had the Hadi with him. He ('Ali) said, "I have assumed Ihram with an intention like that of Allah's Apostle (ﷺ) has assumed it." The Prophet (ﷺ) ordered his companions to intend the Ihram with which they had come for 'Umra, to perform the Tawaf of the Ka’bah (and between Safa and Marwa), to get their hair cut short and then to finish their Ihram with the exception of those who had the Hadi with them. They asked,