کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
(
باب: اگر عمرہ کرنے والے کو راستے میں روک دیا گیا تو وہ کیا کرے
)
Sahi-Bukhari:
Pilgrims Prevented from Completing the Pilgrimage
(Chapter: If one is prevented from 'Umra)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1807.
حضرت عبید اللہ بن عبداللہ اور حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ان دنوں گفتگوکی جب (حجاج کا) لشکر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے خلاف مکہ پہنچ چکا تھا۔ ان دونوں نے عرض کیا: اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو آپ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ مبادا آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو کفار قریش بیت اللہ کے سامنے رکاوٹ بن گئے۔ نبی ﷺ نے ایسے حالات میں اپنی قربانی ذبح کردی اور سر مبارک منڈوادیا۔ لہٰذا میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ واجب کرچکا ہوں۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں ضرور جاؤں گا۔ اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اس کے برعکس اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ آگئی تو میں وہی عمل کروں گا جو نبی ﷺ نے کیا تھا اور میں اس وقت آپ کے ہمراہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے ذوالحلیفہ سے عمرے کا احرام باندھ لیا۔ پھر تھوڑی دیر چل کر فرمانے لگے کہ حکم تو دونوں کا ایک ہے، اس لیے میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی واجب کرلیاہے۔ پھر انھوں نے دونوں کا احرام کھولا حتیٰ کہ قربانی کے دن احرام سے باہر ہوئے اور قربانی ذبح کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ احرام نہ کھولا جائے حتیٰ کہ مکہ میں داخل ہو کر ایک طواف کر لیا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1756
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1807
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1807
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1807
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تمہیں حج یا عمرے سے روک دیا جائے تو جو بھی بدی میسر ہو (کرو)اور اپنے سر نہ منڈاؤتا آنکہ بدی (قربانی) اپنی جگہ پہنچ جائے ۔‘‘
حضرت عطا بن ابی رباح نے کہا کہ احصار ہر چیز اس چیز سے ہے جو اسے روک دے۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے فرمایا قرآن کریم میں حصورًا کے معنی ہیں وہ آدمی جو عورتوں کے پاس نہ آئے۔
لفظ مُحصر اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مصدر احصار ہے جو لغت میں رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں محصر وہ شخص ہے جو حج یا عمرے کو جاتے ہوئے راستے ہی میں کسی بیماری یا طوفان و سیلاب یا دشمن یا کسی بھی وجہ سے روک دیا جائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک احصار صرف دشمن کے ذریعے سے رکاوٹ پڑنے کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مقام حدیبیہ پر بیت اللہ جانے سے روک دیا گیا تھا جبکہ آپ عمرے کی نیت سے آئے تھے، اس وقت احصار کے احکام نازل ہوئے جن کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔ بعض دفعہ دورانِ سفر حج میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے حاجی صاحبان قیامت کے دن لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور انہیں اللہ کے ہاں حاجیوں کے گروہ میں شامل کیا جائے گا۔ احصار کی صورت میں اسی جگہ پر احرام کھول دیا جائے اور اپنا سر منڈوا کر قربانی کر دی جائے۔ ایسے لوگوں کو آئندہ سال حج یا عمرہ کرنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے: "جس شخص کا پاؤں توڑ دیا جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے باہر آ جائے گا، تاہم اسے آئندہ سال حج کرنا ہو گا۔" (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1862)اگر کسی کو رکاوٹ پیش آنے کا اندیشہ ہو تو وہ مشروط احرام بھی باندھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آ جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں؟ آپ نے فرمایا: "مشروط طور پر حج کا احرام باندھ لو کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روک دیا۔" (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5089)امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے تقریبا سولہ مرفوع احادیث پیش کی ہیں اور تین معلق آثار کا بھی حوالہ دیا ہے، پھر ان احادیث و آثار پر دس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان عناوین کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ جب عمرہ کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے٭ حج میں رکاوٹ کا پیدا کرنا٭ رکاوٹ پڑ جانے کی صورت میں سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرنا٭ محصر پر بدل ہے یا نہیں؟٭ إحصار کے متعلق آیت کریمہ کی تفسیر٭ صدقه سے مراد چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے٭ کفارہ ادا کرنے کی صورت میں نصف صاع گندم دینی ہو گی٭ نسك سے مراد ایک بکری ہے٭ فَلَا رَفَثَ کا کیا مطلب ہے؟٭ ارشاد باری تعالیٰ: "دوران حج میں گناہ یا کسی سے جھگڑا نہ کرے۔" کی تشریح:اس کے علاوہ کئی ایک اسنادی مباحث ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ دوران مطالعہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں تاکہ انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کے اسرارورموز سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار کی بنیاد مذکورہ آیت کریمہ کو قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء خزاعی آیا اور کہنے لگا: قریش آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم لڑنے نہیں آئے۔ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو! قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔" آپ نے اپنی قربانی ذبح کی، پھر حجام کو بلایا اس نے آپ کا سر مونڈا۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2731) مذکورہ بالا آیت کریمہ اسی تناظر میں نازل ہوئی۔ احصار کے لیے کوئی چیز بھی سبب بن سکتی ہے، ضروری نہیں کہ دشمن ہی کا اندیشہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے جسے عبد بن حمید نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی کو سانپ یا بچھو ڈس جائے اور وہ چلنے سے معذور ہو جائے تو وہ بھی محصر ہے لیکن اہل کوفہ نے کہا ہے کہ احصار صرف ہڈی ٹوٹنے، دشمن کا خوف اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہو گا، جبکہ بعض حضرات صرف دشمن کے خطرے کو احصار کا باعث قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک احصار عام ہے۔ جو چیز بھی بیت اللہ جانے سے رکاوٹ بن جائے وہ احصار کا سبب ہو سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشتقاق کی مناسبت سے حصورا کے معنی اپنے نفس کو روکنا بتائے ہیں۔ یہ لفظ سورۂ آل عمران 39:3 میں ہے۔ اس لفظ کے معنی اور شرعی احصار میں "منع" کے معنی قدر مشترک ہے۔ (فتح الباری:4/6)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان لوگوں پر رد کرنا ہے جو محصر کے لیے حلال ہونا حج کے ساتھ خاص کرتے ہیں، حدیث باب میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور آپ ﷺ نے حدیبیہ میں احصار کی وجہ سے ایسے کھول دیا۔
حضرت عبید اللہ بن عبداللہ اور حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ان دنوں گفتگوکی جب (حجاج کا) لشکر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے خلاف مکہ پہنچ چکا تھا۔ ان دونوں نے عرض کیا: اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو آپ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ مبادا آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو کفار قریش بیت اللہ کے سامنے رکاوٹ بن گئے۔ نبی ﷺ نے ایسے حالات میں اپنی قربانی ذبح کردی اور سر مبارک منڈوادیا۔ لہٰذا میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ واجب کرچکا ہوں۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں ضرور جاؤں گا۔ اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اس کے برعکس اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ آگئی تو میں وہی عمل کروں گا جو نبی ﷺ نے کیا تھا اور میں اس وقت آپ کے ہمراہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے ذوالحلیفہ سے عمرے کا احرام باندھ لیا۔ پھر تھوڑی دیر چل کر فرمانے لگے کہ حکم تو دونوں کا ایک ہے، اس لیے میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی واجب کرلیاہے۔ پھر انھوں نے دونوں کا احرام کھولا حتیٰ کہ قربانی کے دن احرام سے باہر ہوئے اور قربانی ذبح کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ احرام نہ کھولا جائے حتیٰ کہ مکہ میں داخل ہو کر ایک طواف کر لیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماءنے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے نافع سے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ جن دنوں عبداللہ بن زبیر ؓ پر حجاج کی لشکر کشی ہو رہی تھی تو عبداللہ بن عمر ؓ سے لوگوں نے کہا (کیوں کہ آپ مکہ جانا چاہتے تھے ) کہ اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو کوئی نقصان نہیں کیوں کہ ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کو بیت اللہ پہنچنے سے روک نہ دیا جائے۔ آپ بولے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے تھے اور کفار قریش ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں حائل ہو گئے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی قربانی نحر کی اور سر منڈالیا، عبداللہ نے کہا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے بھی إن شاءاللہ عمرہ اپنے پر واجب قرار دے لیا ہے۔ میں ضرور جاؤں گا اور اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچنے کا راستہ مل گیا تو طواف کروں گا، لیکن اگر مجھے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو نبی کریم ﷺ نے کیا تھا، میں اس وقت بھی آپ ﷺ کے ساتھ موجود تھا چنانچہ آپ نے ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا پھر تھوڑی دور چل کر فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہیں، اب میں بھی تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب قرار دے لیا ہے، آپ نے حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ فارغ ہو کر ہی دسویں ذی الحجہ کو احرام کھولا اور قربانی کی۔ آپ فرماتے تھے کہ جب تک حاجی مکہ پہنچ کر ایک طواف زیارت نہ کرلے پورا احرام نہ کھولنا چاہئے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پر حجاج کی لشکر کشی اور اس سلسلہ میں بہت سے مسلمانوں کا خون ناحق حتی کہ کعبہ شریف کی بے حرمتی یہ اسلامی تاریخ کے وہ دردناک واقعات ہیں جن کے تصور سے آج بھی جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا خمیازہ پوری امت آج تک بھگت رہی ہے، اللہ اہل اسلام کو سمجھ دے کہ وہ اس دور تاریک میں اتحاد باہمی سے کام لے کر دشمنان اسلام کا مقابلہ کریں، جن کی ریشہ دوانیوں نے آج بیت المقدس کو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکال لیا ہے۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔ اللهم انصر الإسلام و المسلمین آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): That Ubaidullah bin 'Abdullah and Salim bin 'Abdullah informed him that they told Ibn 'Umar (RA) when Ibn Az-Zubair was attacked by the army, saying "There is no harm for you if you did not perform Hajj this year. We are afraid that you may be prevented from reaching the Kaba." Ibn 'Umar (RA) said "We set out with Allah's Apostle (ﷺ) and the non-believers of Quraish prevented us from reaching the Ka’bah, and so the Prophet (ﷺ) slaughtered his Hadi and got his head shaved." Ibn 'Umar (RA) added, "I make you witnesses that I have made 'Umra obligatory for me. And, Allah willing, I will go and then if the way to Ka’bah is clear, I will perform the Tawaf, but if I am prevented from going to the Ka’bah then I will do the same as the Prophet (ﷺ) did while I was in his company." Ibn 'Umar (RA) then assumed Ihram for Umra from Dhul-Hulaifa and proceeded for a while and said, "The conditions of 'Umra and Hajj are similar and I make you witnesses that I have made 'Umra and Hajj obligatory for myself." So, he did not finish the Ihram till the day of Nahr (slaughtering) came, and he slaughtered his Hadi. He used to say, "I will not finish the Ihram till I perform the Tawaf, one Tawaf on the day of entering Makkah (i.e. of Safa and Marwa for both 'Umra and Hajj)."