Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: (What kind of) animals can be killed by a Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1830.
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ منیٰ کے ایک غار میں تھے۔ اتنے میں سورہ مرسلات آپ پر نازل ہوئی جس کی آپ تلاوت فرمانے لگے اور میں بھی آپ سے سن کر اسے یاد کرنے لگا۔ آپ کا روئے مبارک تلاوت سے ابھی تروتازہ تھا کہ اچانک ایک سانپ ہم لوگوں پر کود نکلا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اسے مار ڈالو‘‘ چنانچہ ہم اسے مارنے کے لیے جلدی دوڑے مگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس طرح تم اس کے ضررسےبچا لیے گئےہواسی طرح وہ بھی تمھارے ضررسے بچا لیا گیاہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس روایت سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ محرم آدمی سانپ کو مار سکتا ہے کیونکہ وہ بھی موذی جانور ہے۔ اس حدیث میں اگرچہ حالت احرام کا ذکر نہیں لیکن ایک روایت میں ہے کہ مذکورہ واقعہ عرفہ کی رات پیش آیا تھا اور عرفہ کی رات تو احرام میں گزاری جاتی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک محرم کو منیٰ کے مقام پر سانپ مارنے کا حکم دیا تھا۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث:5837(2235)) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالتِ احرام میں سانپ مارنا جائز ہے۔ (2) ابن منذر نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ محرم آدمی سانپ مار سکتا ہے لیکن بعض حضرات نے چھوٹے سانپوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جو نقصان دہ نہ ہوں۔ (فتح الباري:53/4 ،54)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1778
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1830
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1830
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1830
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ منیٰ کے ایک غار میں تھے۔ اتنے میں سورہ مرسلات آپ پر نازل ہوئی جس کی آپ تلاوت فرمانے لگے اور میں بھی آپ سے سن کر اسے یاد کرنے لگا۔ آپ کا روئے مبارک تلاوت سے ابھی تروتازہ تھا کہ اچانک ایک سانپ ہم لوگوں پر کود نکلا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اسے مار ڈالو‘‘ چنانچہ ہم اسے مارنے کے لیے جلدی دوڑے مگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس طرح تم اس کے ضررسےبچا لیے گئےہواسی طرح وہ بھی تمھارے ضررسے بچا لیا گیاہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ محرم آدمی سانپ کو مار سکتا ہے کیونکہ وہ بھی موذی جانور ہے۔ اس حدیث میں اگرچہ حالت احرام کا ذکر نہیں لیکن ایک روایت میں ہے کہ مذکورہ واقعہ عرفہ کی رات پیش آیا تھا اور عرفہ کی رات تو احرام میں گزاری جاتی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک محرم کو منیٰ کے مقام پر سانپ مارنے کا حکم دیا تھا۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث:5837(2235)) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالتِ احرام میں سانپ مارنا جائز ہے۔ (2) ابن منذر نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ محرم آدمی سانپ مار سکتا ہے لیکن بعض حضرات نے چھوٹے سانپوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جو نقصان دہ نہ ہوں۔ (فتح الباري:53/4 ،54)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے اسود سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ منیٰ کے غار میں تھے کہ آپ ﷺ پر سورہ والمرسلات نازل ہونی شروع ہوئی۔ پھر آپ ﷺ اس کی تلاوت کرنے لگے اور میں آپ کی زبان سے اسے سیکھنے لگا، ابھی آپ ﷺ نے تلاوت ختم بھی نہیں کی تھی کہ ہم پر ایک سانپ گرا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے مار ڈالو چنانچہ ہم اس کی طرف لپکے لیکن وہ بھاگ گیا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح سے تم اس کے شر سے بچ گئے وہ بھی تمہارے شر سے بچ کر چلا گیا۔ حضرت ابوعبداللہ امام بخاری ؓ نے کہا کہ اس حدیث سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ منیٰ حرم میں داخل ہے اور صحابہ نے حرم میں سانپ مارنے میں کوی حرج نہیں سمجھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث سے باب کا مطلب نہیں نکلتا، کیوں کہ حدیث میں یہ کہاں ہے کہ صحابہ احرام باندھے ہوئے تھے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اسماعیل کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ واقعہ عرفہ کی رات کا ہے اور ظاہر ہے کہ اس وقت سب لوگ احرام باندھے ہوئے ہوں گے۔ پس باب کا مطلب نکل آیا قال ابوعبداللہ الخ یہ عبارت اکثر نسخوں میں نہیں ہے ابوالوقت کی روایت میں ہے۔ اس عبارت سے وہ اشکال رفع ہو جاتا ہے جو اوپر بیان ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): While we were in the company of the Prophet (ﷺ) in a cave at Mina, when Surat-wal-Mursalat were revealed and he recited it and I heard it (directly) from his mouth as soon as he recited its revelation. Suddenly a snake sprang at us and the Prophet (ﷺ) said (ordered us): "Kill it." We ran to kill it but it escaped quickly. The Prophet (ﷺ) said, "It has escaped your evil and you too have escaped its evil."