Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The using of the remaining water after ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔
187.
حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے ہاں تشریف لائے۔ آپ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا تو آپ نے وضو فرمایا۔ پھر لوگ آپ کے وضو سے باقی ماندہ پانی لینے لگے اور بدن پر ملنے گئے۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے ظہر اور عصر کی دو، دو رکعت ادا کیں اور دوران نماز میں آپ کے سامنے ایک برچھی گاڑی گئی تھی۔
تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث مذکور میں فضل وضو سے مراد وہ پانی ہے جو رسول ﷺ کے وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا جسے لوگوں نے تقسیم کر لیا اور چہروں پر ملنا شروع کردیا۔ اگر چہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ پانی ہو جو وضو کرتے وقت اعضائے شریفہ سے گررہا تھا جسے فقہاء کی اصطلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ یہ حدیث مستعمل پانی کے پاک ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (فتح الباري:386/1) لیکن ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ پانی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اعضائے شریفہ پر لگنے کے بعد گر رہا تھا، اس میں انوار و برکات زیادہ ہیں۔ اس متبرک پانی کو حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی شروع ہوئی تھی۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ وضو کے بعد جو پانی برتن میں بچ رہے یا وہ پانی جو وضو کرنے والے کے اعضاء سے ٹپکے اس قسم کے پانی کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ پانی نجس نہیں، کیونکہ نجاست آلود چیز بابرکت نہیں ہو سکتی۔ 2۔ جو لوگ ماءِ مستعمل کو ’’ماءِ ذَنوب‘‘ قراردے کر نجس کہتے ہیں اور اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے، ان کے متعلق ابن بطال نے محدث ابن القصار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس پانی سے گناہوں کا دھل جانا اپنی جگہ پر مسلّم حقیقت ہے، لیکن وہ گناہ نمک کی طرح پانی میں تحلیل نہیں ہوئے کہ اسے نجس قراردے دیا جائے، اس طرح یہ گناہ پانی کے حکم پر شرعاً اثر انداز نہیں ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ نے بطور مثال ہمیں سمجھایا ہے کہ جس طرح کپڑا دھونے سے اس کی میل کچیل دور ہو جاتی ہے اسی طرح وضو کرنے سے انسان کا بدن گناہوں کی میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ وضو کا پانی پہلے پہلے اعضائے وضو کے جن اجزاء پر پڑے گا اگر وہ گناہوں کی آمیزش سے نجس ہو جاتے تو اعضائے وضو کے بقیہ اجزاء کو کیونکر پاک کر سکتا ہے، اگر ایسی بات ہو تو وضو کرنے والے کو اعضائے وضو کے ہر حصے کو دھونے کے لیے نیا پانی لینا پڑے گا، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ (شرح ابن بطال:290/1) 3۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے مضافاتِ مکہ میں نماز پڑھتے وقت سترے کا اہتمام کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام یا حرم مکہ میں بھی امام اور منفرد کو نماز کے لیے اپنے آگے سترہ رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر مکہ اور غیر مکہ میں سترے کے ضروری ہونے کے لیے ایک عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:501) 4۔ وضو کرتے وقت اعضائے وضو سے ٹپکنے والا پانی اس معنی میں تو مستعمل ہو سکتا ہے کہ یہ پینے کے قابل نہیں رہتا کہ آپ لوگوں کو پیش کریں، لیکن اگر کسی کپڑے پر گر جائے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس سے اجتناب کرنے کی تلقین ضرور فرماتے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کے چھینٹوں سے احتراز کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اعضائے شریفہ سے لگ کر گرنے والا پانی انتہائی بابرکت ہے۔ جبکہ عام انسان کے اعضاء سے گرنے والا پانی اس قسم کی خیرو برکت سے خالی ہوتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
188
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
187
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
187
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
187
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں مطلق طور پر تین الفاظ استعمال کیے ہیں ان کے ساتھ کسی قید کا ذکر نہیں کیا اس بنا پر عنوان کا مفہوم بہت وسیع ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔1۔استعمال اس سے مراد پانی کو کام میں لانے کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں وہ اس میں شامل ہیں مثلاً: نوش کرنا، نہانا ،کپڑے دھونا ،اور وضو کرنا وغیرہ 2۔ فضل :یہ لفظ بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے یعنی اس سے مراد وہ پانی بھی ہے جو وضو کے بعد برتن میں بچ گیا ہو اور وہ بھی مراد ہے جو اعضاء کو دھوتے وقت ٹپک ٹپک کر کسی جگہ جمع ہو گیا ہو۔3۔وضو:اس میں بھی توسیع ہے کہ اس سے مراد وضوئے حدث بھی ہو سکتا ہے اور وضوئے مستحب بھی ہو سکتا ہے جسے وضو علیٰ وضو کہا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک فضل وضو دونوں معنوں کے اعتبار سے طاہر بھی ہے اور مطہر بھی جبکہ بعض لوگ اسے طاہر تو مانتے ہیں لیکن رفع حدث کے لیے دوبارہ اس قسم کے پانی کو وضو میں استعمال کرنا صحیح نہیں سمجھتے کیونکہ اس سے ایک مرتبہ طہارت حاصل کی جاچکی ہے بعض فقہاء کے نزدیک جو پانی وضو کے لیے استعمال ہو چکا ہو، اس قسم کا ماء مستعمل نجس ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ پانی جو رفع حدث کے لیے ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہے اس میں حدیث کے مطابق وہ معاصی بھی شامل ہو گئے ہیں جو وضو کرنے سے پہلے اعضاء سے سر زد ہوئے تھے اس بنا پر یہ نجاست ظاہری نہیں جو بصارت اور حواس ظاہری سے معلوم کی جا سکتی ہو بلکہ یہ نجاست معنوی ہے جس کا تعلق بصیرت اور دل کی بیداری سے ہے ان کے نزدیک اگر کسی کے صغیرہ گناہ دھلے ہیں تو یہ پانی نجاست خفیفہ کا حکم رکھتا ہے اور اگر کوئی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے توماء مستعمل نجاست غلیظہ کے حکم میں ہے لیکن اس فکر کے پس منظر میں کوئی روایت نہیں بلکہ محض عقل کے بل بوتے پر اسے نجس ثابت کیا جا رہا ہے جس کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں البتہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس عنوان سے وہ پانی مراد ہے جو وضو کے بعد برتن میں بچ گیا ہو ۔ لیکن ہمارے نزدیک "ٖفضل"سے مراد وہ دونوں صورتیں ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیاہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک اثر اور چند حدیثیں پیش کی ہیں جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ اثر کو ابن ابی شیبہ (1/313)اور دارقطنی نے موصولاً بیان کیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی میں ڈبو ڈبو کر مسواک کرتے پھر اپنے اہل خانہ کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم دیتے۔ دارقطنی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ تم اس پانی سے وضو کرو جس میں مسواک کو ڈبویا گیا ہے، مسواک چونکہ حدیث کے مطابق (مطهرة للفم)"منہ کو پاک کرنے کا آلہ ہے"جس طرح وجو(مطهرة للبدن) "بدن کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔"منہ کی طہارت کے لیے استعمال شدہ مسواک کا وہی حکم ہے جو بدن کی طہارت کے لیے استعمال شدہ پانی کا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنا پر حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اثر بیان فرمایا ہے منہ کی طہارت کے لیے استعمال شدہ مسواک پانی میں ڈالی گئی اگر وہ استعمال کے قابل نہ ہوتا تو حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے استعمال کرنے کا حکم کیوں دیتے؟امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس اثر کا مطلب دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کے برتن میں مسواک ڈالتے اور اسے استعمال کرتے جب مسواک سے فارغ ہو جاتے تو اس پانی سے وضو کر لیتے۔اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے لیکن اس کی سند درست نہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن التین وغیرہ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے وہ پانی مراد ہے جس میں مسواک کو نرم کرنے کے لیے تر کیا جاتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل مذکور سے پانی میں کوئی تغیر نہیں آیا اور انھوں نے اس غیر متغیر پانی کو استعمال کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح پانی کو صرف استعمال کرنے سے بھی اس میں کوئی تغیر نہیں آتا لہٰذا اس سے دوبارہ طہارت حاصل کرنا ممنوع نہیں ہو گا۔( فتح الباری:1/385۔)
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے ہاں تشریف لائے۔ آپ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا تو آپ نے وضو فرمایا۔ پھر لوگ آپ کے وضو سے باقی ماندہ پانی لینے لگے اور بدن پر ملنے گئے۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے ظہر اور عصر کی دو، دو رکعت ادا کیں اور دوران نماز میں آپ کے سامنے ایک برچھی گاڑی گئی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث مذکور میں فضل وضو سے مراد وہ پانی ہے جو رسول ﷺ کے وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا جسے لوگوں نے تقسیم کر لیا اور چہروں پر ملنا شروع کردیا۔ اگر چہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ پانی ہو جو وضو کرتے وقت اعضائے شریفہ سے گررہا تھا جسے فقہاء کی اصطلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ یہ حدیث مستعمل پانی کے پاک ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (فتح الباري:386/1) لیکن ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ پانی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اعضائے شریفہ پر لگنے کے بعد گر رہا تھا، اس میں انوار و برکات زیادہ ہیں۔ اس متبرک پانی کو حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی شروع ہوئی تھی۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ وضو کے بعد جو پانی برتن میں بچ رہے یا وہ پانی جو وضو کرنے والے کے اعضاء سے ٹپکے اس قسم کے پانی کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ پانی نجس نہیں، کیونکہ نجاست آلود چیز بابرکت نہیں ہو سکتی۔ 2۔ جو لوگ ماءِ مستعمل کو ’’ماءِ ذَنوب‘‘ قراردے کر نجس کہتے ہیں اور اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے، ان کے متعلق ابن بطال نے محدث ابن القصار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس پانی سے گناہوں کا دھل جانا اپنی جگہ پر مسلّم حقیقت ہے، لیکن وہ گناہ نمک کی طرح پانی میں تحلیل نہیں ہوئے کہ اسے نجس قراردے دیا جائے، اس طرح یہ گناہ پانی کے حکم پر شرعاً اثر انداز نہیں ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ نے بطور مثال ہمیں سمجھایا ہے کہ جس طرح کپڑا دھونے سے اس کی میل کچیل دور ہو جاتی ہے اسی طرح وضو کرنے سے انسان کا بدن گناہوں کی میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ وضو کا پانی پہلے پہلے اعضائے وضو کے جن اجزاء پر پڑے گا اگر وہ گناہوں کی آمیزش سے نجس ہو جاتے تو اعضائے وضو کے بقیہ اجزاء کو کیونکر پاک کر سکتا ہے، اگر ایسی بات ہو تو وضو کرنے والے کو اعضائے وضو کے ہر حصے کو دھونے کے لیے نیا پانی لینا پڑے گا، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ (شرح ابن بطال:290/1) 3۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے مضافاتِ مکہ میں نماز پڑھتے وقت سترے کا اہتمام کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام یا حرم مکہ میں بھی امام اور منفرد کو نماز کے لیے اپنے آگے سترہ رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر مکہ اور غیر مکہ میں سترے کے ضروری ہونے کے لیے ایک عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:501) 4۔ وضو کرتے وقت اعضائے وضو سے ٹپکنے والا پانی اس معنی میں تو مستعمل ہو سکتا ہے کہ یہ پینے کے قابل نہیں رہتا کہ آپ لوگوں کو پیش کریں، لیکن اگر کسی کپڑے پر گر جائے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس سے اجتناب کرنے کی تلقین ضرور فرماتے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کے چھینٹوں سے احتراز کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اعضائے شریفہ سے لگ کر گرنے والا پانی انتہائی بابرکت ہے۔ جبکہ عام انسان کے اعضاء سے گرنے والا پانی اس قسم کی خیرو برکت سے خالی ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ نے اپنے اہل خانہ کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم دیا جو مسواک کرنے کے بعد بچ رہا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حکم نے بیان کیا، انھوں نے ابوجحیفہ ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے تو آپ کے لیے وضو کا پانی حاضر کیا گیا جس سے آپ نے وضو فرمایا۔ لوگ آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر اسے (اپنے بدن پر) پھیرنے لگے۔ آپ ﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں اور آپ کے سامنے (آڑ کے لیے) ایک نیزہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Juhaifa (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came to us at noon and water for ablution was brought to him. After he had performed ablution, the remaining water was taken by the people and they started smearing their bodies with it (as a blessed thing). The Prophet (ﷺ) offered two Rakat of the Zuhr prayer and then two Rakat of the 'Asr prayer while an 'Anza (spear-headed stick) was there (as a Sutra) in front of him.