باب : مدینہ کی فضیلت اور بے شک مدینہ (برے ) آدمیوں کو نکال کر باہر کردیتاہے
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of Madinah
(Chapter: Superiority of Al-Madina. It expels (evil) persons)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1871.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ایک ایسی بستی میں جانے کا حکم دیاگیا ہے جو دوسری بستیوں کو اپنے اندر جذب کرے گی لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ اس کاصحیح نام’’مدینہ‘‘ ہے۔ وہ برے لوگوں کو اس طرح نکال دے گی جیسے بھٹی لوہے کا میل کچیل نکال دیتی ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں مدینہ طیبہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ دیگر شہروں کا پایۂ تخت اور دارالحکومت بن جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور مدینہ طیبہ ایک مدت تک ایران، توران، مصر اور شام کا دارالخلافہ رہا۔ اسلامی لشکروں کا مرکز رہا اور یہیں سے لشکر روانہ ہو کر فتوحات کرتے اور غنیمتیں لاتے۔ (2) منافقین اسے یثرب کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس نام کو پسند نہیں کیا کیونکہ یثرب کے معنی شرمندگی دلانا ہے اور یہ معنی مدینہ طیبہ کی شان کے خلاف ہیں کہ جو وہاں جائے اسے شرمندہ کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند کیا کہ اسے مدینہ کہا جائے۔ اس اطلاق میں رفعت شان ہے، یعنی مدینہ طیبہ کامل شہر ہے۔ (3) اس عنوان کا دوسرا جز ’’مدینہ طیبہ برے لوگوں کو نکال دے گا‘‘ اپنے عموم پر نہیں بلکہ وقت اور کچھ لوگوں کے ساتھ خاص ہے، چنانچہ قاضی عیاض نے لکھا ہے: یہ حدیث رسول اللہ ﷺکے زمانے کے ساتھ خاص ہے کیونکہ ہجرت اور مدینہ میں اقامت پر وہی صبر کرتا تھا جو کامل الایمان ہوتا۔ اس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں ایک اعرابی کے بیعت واپس لینے کے مطالبے کا ذکر ہے۔ امام نووی ؒ نے لکھا ہے: اس حدیث کا مصداق دجال کے وقت ہو گا جب مدینہ سے بہت سے منافقین نکل کر دجال سے مل جائیں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: احادیث کے اعتبار سے دونوں زمانے مراد لیے جا سکتے ہیں، نیز یہ ضروری نہیں کہ مدینے سے تمام شریر لوگ نکل جائیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مدینہ طیبہ مسلسل ان کی چھانٹی کرتا رہے گا اگرچہ کچھ اس میں رہ بھی جائیں گے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ﴾’’اہل مدینہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔‘‘ (التوبة:101:9) یہ بھی ضروری نہیں کہ مدینے سے جانے والے سب شریر ہوں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت معاذ، ابو عبیدہ، ابن مسعود، حضرت طلحہ، زبیر اور حضرت عمار ؓ نے مدینہ طیبہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں اقامت اختیار کر لی تھی، حالانکہ یہ لوگ دینی اعتبار سے افضل تھے۔ (فتح الباري:114/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1817
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1871
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1871
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1871
تمہید کتاب
دور جاہلیت میں مدینہ طیبہ کا نام یثرب تھا۔ یہ لفظ تثريب سے مشتق ہے جس کے معنی توبیخ و ملامت کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں آنے والوں کو ملامت کیا کرتے تھے کیونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، لیکن یہ نام مدینہ طیبہ کے شایان شان نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس نام کی نسبت منافقین کی طرف کی ہے اور اسے بطور حکایت نقل کیا ہے۔ (الاحزاب13:33) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی تشریف آوری کے بعد اس نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اس کا نام طیبہ رکھا۔ (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3356(1384)) مسند ابی داود طیالسی اور معجم الکبیر طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله أمرني أن أسمي المدينة طيبة) "یقینا اللہ ذوالجلال نے مجھے اس کا نام طیبہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔" (صحیح الجامع الصغیر للالبانی،حدیث:1723) ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کا نام طابہ منتخب کیا ہے۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3357(1385)) طابہ اور طیبہ دونوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں، چنانچہ مدینہ طیبہ میں قلوب و اذہان کے لیے جو سکون و اطمینان اور خوشگواری ہے وہ اسی شہر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی ہے: "اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ مزید اتنے کی دعا کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3334(1373)) قرآن کریم میں مکہ کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کو وہاں بسا کر کی تھی۔ وہ اس طرح ہے: "اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و الفت ڈال دے اور یہاں ان کی ضرورت کے مطابق پھل مہیا کر، نیز یہاں کے لیے امن و سلامتی مقدر فرما۔" (ابراھیم37:14) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی خیر و برکت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی: "اے اللہ! مدینہ طیبہ میں مکہ مکرمہ کے اعتبار سے دو چند خیروبرکت عطا فرما۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3326(1369))آپ کی اس دعا کا ثمرہ ہے کہ دنیا بھر میں جن اہل ایمان کو مکہ سے عقیدت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے محبت ہے اور اس محبوبیت میں مدینہ طیبہ کا حصہ مکہ مکرمہ سے یقینا زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے قابل احترام ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے حرم قرار دیے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کا درمیانی رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں کسی قسم کی خونریزی نہ کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور چارے کی ضرورت کے علاوہ یہاں درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3336(1374)) اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقے کی طرح واجب الاحترام ہے اور وہاں ہر وہ اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے منافی ہو لیکن اس کے احکام مکہ جیسے نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ میں جانوروں کے چارے کے لیے درختوں کے پتے جھاڑے جا سکتے ہیں جبکہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مزید فرمایا: "میرا جو امتی ایمان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرے گا اور وہاں پڑا رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3339(1374)) سفارش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دے اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی تالیفات میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد "فضائل مدینہ" کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت و حرمت پر مشتمل احادیث بیان کرتے ہیں۔ اسی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی مسائل حج و عمرہ کے بعد کتاب فضائل المدینۃ کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت پر مشتمل چھبیس احادیث بیان کی ہیں۔ پھر ان پر بارہ چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کیے ہیں جن میں دو بلا عنوان ہیں۔ عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ کا قابل احترام ہونا۔ ٭ مدینہ طیبہ کی فضیلت، نیز وہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ طابہ ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کے دو کنارے۔ ٭ جس نے مدینہ طیبہ سے اعراض کیا۔ ٭ ایمان مدینہ طیبہ کی طرف سمٹ آئے گا۔ ٭ اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے کا گناہ۔ ٭ مدینہ طیبہ کے محلات۔ ٭ مدینہ طیبہ میں دجال داخل نہیں ہو گا۔ ٭ مدینہ طیبہ خباثت کو دور کر دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کو بے آباد کرنے کی کراہت۔ ٭ بلا عنوان۔امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ چھبیس احادیث میں سے چار معلق اور بائیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں نو مکرر اور باقی سترہ خالص ہیں۔ ان میں سے دو احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بیان کیا ہے جس سے اس عنوان کے حسن اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔ اے اللہ! ہمیں حق پہچان کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ایک ایسی بستی میں جانے کا حکم دیاگیا ہے جو دوسری بستیوں کو اپنے اندر جذب کرے گی لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ اس کاصحیح نام’’مدینہ‘‘ ہے۔ وہ برے لوگوں کو اس طرح نکال دے گی جیسے بھٹی لوہے کا میل کچیل نکال دیتی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں مدینہ طیبہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ دیگر شہروں کا پایۂ تخت اور دارالحکومت بن جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور مدینہ طیبہ ایک مدت تک ایران، توران، مصر اور شام کا دارالخلافہ رہا۔ اسلامی لشکروں کا مرکز رہا اور یہیں سے لشکر روانہ ہو کر فتوحات کرتے اور غنیمتیں لاتے۔ (2) منافقین اسے یثرب کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس نام کو پسند نہیں کیا کیونکہ یثرب کے معنی شرمندگی دلانا ہے اور یہ معنی مدینہ طیبہ کی شان کے خلاف ہیں کہ جو وہاں جائے اسے شرمندہ کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند کیا کہ اسے مدینہ کہا جائے۔ اس اطلاق میں رفعت شان ہے، یعنی مدینہ طیبہ کامل شہر ہے۔ (3) اس عنوان کا دوسرا جز ’’مدینہ طیبہ برے لوگوں کو نکال دے گا‘‘ اپنے عموم پر نہیں بلکہ وقت اور کچھ لوگوں کے ساتھ خاص ہے، چنانچہ قاضی عیاض نے لکھا ہے: یہ حدیث رسول اللہ ﷺکے زمانے کے ساتھ خاص ہے کیونکہ ہجرت اور مدینہ میں اقامت پر وہی صبر کرتا تھا جو کامل الایمان ہوتا۔ اس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں ایک اعرابی کے بیعت واپس لینے کے مطالبے کا ذکر ہے۔ امام نووی ؒ نے لکھا ہے: اس حدیث کا مصداق دجال کے وقت ہو گا جب مدینہ سے بہت سے منافقین نکل کر دجال سے مل جائیں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: احادیث کے اعتبار سے دونوں زمانے مراد لیے جا سکتے ہیں، نیز یہ ضروری نہیں کہ مدینے سے تمام شریر لوگ نکل جائیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مدینہ طیبہ مسلسل ان کی چھانٹی کرتا رہے گا اگرچہ کچھ اس میں رہ بھی جائیں گے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ﴾’’اہل مدینہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔‘‘ (التوبة:101:9) یہ بھی ضروری نہیں کہ مدینے سے جانے والے سب شریر ہوں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت معاذ، ابو عبیدہ، ابن مسعود، حضرت طلحہ، زبیر اور حضرت عمار ؓ نے مدینہ طیبہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں اقامت اختیار کر لی تھی، حالانکہ یہ لوگ دینی اعتبار سے افضل تھے۔ (فتح الباري:114/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک ؓ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوالحباب سعید بن یسار سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسے شہر (میں ہجرت ) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو کھالے گا۔ (یعنی سب کا سردار بنے گا ) منافقین اسے یثرب کہتے ہیں لیکن اس کا نام مدینہ ہے وہ (برے ) لوگوں کو اس طرح باہر کردیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو نکال دیتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام مالک بن انس ؓ ائمہ اربعہ میں سے ایک مشہور ترین امام ہیں، جو انس بن مالک بن ابی عامر کے بیٹے اور اصبحی ہیں ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ 95ھ میں پیدا ہوئے اور مدینہ طیبہ میں بعمر84 سال179ھ میں فات پائی۔ آپ نہ صرف حجاز کے امام تھے بلکہ حدیث و فقہ میں تمام مسلمانوں کے مقتداتھے آپ کے فخر کے لیے اسی قدر کافی ہے کہ امام شافعی آپ کے شاگردوں میں سے ہیں، آپ نے زہری، یحییٰ بن سعید، نافع، محمد بن منکدر، ہشام بن عروہ، یزید بن اسلم، ربیعہ بن ابوعبدالرحمن اور ان کے علاوہ بہت سے حضرات سے علم حدیث حاصل کیا اورآپ سے اس قدر مخلوق نے روایت کی جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔ آپ کے شاگرد پورے ملک کے امام بنے جن میں امام شافعی، محمد بن ابراہیم بن دینار، ابوہاشم عبدالعزیز بن ابی حازم شامل ہیں جو اپنے علم و عمل کے لحاظ سے آپ کے شاگردوں میں بے نظیر مانے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں معین بن عیسیٰ، یحییٰ بن یحییٰ، عبداللہ بن مسلمہ قعنبی، عبداللہ بن وہب جیسے لوگوں کا شمارنہیں، یہی امام بخاری، مسلم، ابوداود، ترمذی، احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین جیسے محدثین کرام کے اساتذہ ہیں۔ جب حدیث کا درس دیتے تو وضو فرما کر مسند پر تشریف لاتے۔ داڑھی میں کنگھا کرتے، خوشبو استعمال فرماتے اور نہایت باوقار اورپرہیئت ہو کر بیٹھتے اور فرمایا کرتے کہ میں یہ اہتمام حدیث نبوی کی عظمت کرنے کے لیے کرتا ہوں۔ ابوعبدللہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہیں، لوگ ارد گرد ہیں اور امام مالک حضور ﷺ کے سامنے مودبانہ کھڑے ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے سامنے مشک کا ڈھیر رکھا ہوا ہے اور آپ مٹھیاں بھر بھر کر وہ مشک عنبر امام مالک کو دے رہے ہیں۔ اورامام مالک اسے لوگوں پر چھڑک رہے ہیں۔ مطرف نے کہا کہ میں نے اس کی تعبیر علم حدیث کی خدمت اور اتباع سنت سمجھی، امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت امام مالک کے مکان کے دروازے پر کچھ خراسان کے گھوڑوں کی جماعت اورکچھ مصر کے خچروں کا غول دیکھے جن سے بہتر میں نے کبھی نہیں دکھے تھے۔ میں نے امام سے عرض کیا کہ یہ کیسے اچھے ہیں، آپ نے فرمایا کے اے ابوعبداللہ ! یہ تمام میری جانب سے آپ کے لیے تحفہ ہیں، قبول فرمائیے۔ میں نے گزارش کی اپنی سواری کے لیے کوئی جانور رکھ لیجئے۔ جواب دیا کہ مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ جس زمین کو رسول اللہ ﷺ کی آرام گاہ بننے کا شرف حاصل ہے میں اسے کسی جانور کے کھروں سے روند کر گزاروں۔ آپ کے مناقب کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ رحمه اللہ رحمة واسعة ( آمین )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "I was ordered to migrate to a town which will swallow (conquer) other towns and is called Yathrib and that is Medina, and it turns out (bad) persons as a furnace removes the impurities of iron.