Sahi-Bukhari:
Virtues of Madinah
(Chapter: The dislike of the Prophet (saws) that Al-Madina should be vacated)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1887.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ بنو سلمہ قبیلے نے ارادہ کیا کہ وہ مسجد نبوی ﷺ کے قریب منتقل ہوجائیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ مدینہ طیبہ کو یوں بےآباد کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا: ’’اے بنو سلمہ!کیا تم اپنے نشانات قدم کا ثواب نہیں لینا چاہتے ہو؟‘‘ یہ سن کر بنو سلمہ نقل مکانی سے رک گئے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تھے لیکن آپ نے مدینہ طیبہ ہی کو اپنا حقیقی ٹھکانا اور وطن بنا لیا۔ اس کی آبادی اور ترقی کے لیے اس قدر کوشاں ہوئے کہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ آپ کا یہ اولین مقصد تھا کہ اس کی آبادی ہر طرف سے قائم رہے اور اس میں ترقی ہوتی جائے تاکہ کفارومنافقین پر رعب پڑے۔ (2) حضرت امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کی اقامت ترک کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ یہ اس مسلمان کی عین سعادت ہے جسے وہاں اطمینان کے ساتھ اقامت مل جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے بنو سلمہ کی نقل مکانی کو اسی لیے ناپسند فرمایا، البتہ دعوت دین اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے اگر مدینہ طیبہ کی اقامت چھوڑنی پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ متعدد صحابۂ کرام ؓ نے دعوت و تبلیغ کے لیے مدینہ طیبہ کو چھوڑ دیا تھا۔ (3) مدینے سے باہر رہتے ہوئے بھی اپنے دل میں اس کی محبت رکھنا عین ایمان ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1833
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1887
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1887
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1887
تمہید کتاب
دور جاہلیت میں مدینہ طیبہ کا نام یثرب تھا۔ یہ لفظ تثريب سے مشتق ہے جس کے معنی توبیخ و ملامت کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں آنے والوں کو ملامت کیا کرتے تھے کیونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، لیکن یہ نام مدینہ طیبہ کے شایان شان نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس نام کی نسبت منافقین کی طرف کی ہے اور اسے بطور حکایت نقل کیا ہے۔ (الاحزاب13:33) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی تشریف آوری کے بعد اس نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اس کا نام طیبہ رکھا۔ (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3356(1384)) مسند ابی داود طیالسی اور معجم الکبیر طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله أمرني أن أسمي المدينة طيبة) "یقینا اللہ ذوالجلال نے مجھے اس کا نام طیبہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔" (صحیح الجامع الصغیر للالبانی،حدیث:1723) ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کا نام طابہ منتخب کیا ہے۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3357(1385)) طابہ اور طیبہ دونوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں، چنانچہ مدینہ طیبہ میں قلوب و اذہان کے لیے جو سکون و اطمینان اور خوشگواری ہے وہ اسی شہر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی ہے: "اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ مزید اتنے کی دعا کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3334(1373)) قرآن کریم میں مکہ کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کو وہاں بسا کر کی تھی۔ وہ اس طرح ہے: "اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و الفت ڈال دے اور یہاں ان کی ضرورت کے مطابق پھل مہیا کر، نیز یہاں کے لیے امن و سلامتی مقدر فرما۔" (ابراھیم37:14) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی خیر و برکت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی: "اے اللہ! مدینہ طیبہ میں مکہ مکرمہ کے اعتبار سے دو چند خیروبرکت عطا فرما۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3326(1369))آپ کی اس دعا کا ثمرہ ہے کہ دنیا بھر میں جن اہل ایمان کو مکہ سے عقیدت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے محبت ہے اور اس محبوبیت میں مدینہ طیبہ کا حصہ مکہ مکرمہ سے یقینا زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے قابل احترام ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے حرم قرار دیے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کا درمیانی رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں کسی قسم کی خونریزی نہ کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور چارے کی ضرورت کے علاوہ یہاں درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3336(1374)) اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقے کی طرح واجب الاحترام ہے اور وہاں ہر وہ اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے منافی ہو لیکن اس کے احکام مکہ جیسے نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ میں جانوروں کے چارے کے لیے درختوں کے پتے جھاڑے جا سکتے ہیں جبکہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مزید فرمایا: "میرا جو امتی ایمان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرے گا اور وہاں پڑا رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3339(1374)) سفارش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دے اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی تالیفات میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد "فضائل مدینہ" کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت و حرمت پر مشتمل احادیث بیان کرتے ہیں۔ اسی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی مسائل حج و عمرہ کے بعد کتاب فضائل المدینۃ کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت پر مشتمل چھبیس احادیث بیان کی ہیں۔ پھر ان پر بارہ چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کیے ہیں جن میں دو بلا عنوان ہیں۔ عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ کا قابل احترام ہونا۔ ٭ مدینہ طیبہ کی فضیلت، نیز وہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ طابہ ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کے دو کنارے۔ ٭ جس نے مدینہ طیبہ سے اعراض کیا۔ ٭ ایمان مدینہ طیبہ کی طرف سمٹ آئے گا۔ ٭ اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے کا گناہ۔ ٭ مدینہ طیبہ کے محلات۔ ٭ مدینہ طیبہ میں دجال داخل نہیں ہو گا۔ ٭ مدینہ طیبہ خباثت کو دور کر دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کو بے آباد کرنے کی کراہت۔ ٭ بلا عنوان۔امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ چھبیس احادیث میں سے چار معلق اور بائیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں نو مکرر اور باقی سترہ خالص ہیں۔ ان میں سے دو احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بیان کیا ہے جس سے اس عنوان کے حسن اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔ اے اللہ! ہمیں حق پہچان کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ بنو سلمہ قبیلے نے ارادہ کیا کہ وہ مسجد نبوی ﷺ کے قریب منتقل ہوجائیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ مدینہ طیبہ کو یوں بےآباد کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا: ’’اے بنو سلمہ!کیا تم اپنے نشانات قدم کا ثواب نہیں لینا چاہتے ہو؟‘‘ یہ سن کر بنو سلمہ نقل مکانی سے رک گئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تھے لیکن آپ نے مدینہ طیبہ ہی کو اپنا حقیقی ٹھکانا اور وطن بنا لیا۔ اس کی آبادی اور ترقی کے لیے اس قدر کوشاں ہوئے کہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ آپ کا یہ اولین مقصد تھا کہ اس کی آبادی ہر طرف سے قائم رہے اور اس میں ترقی ہوتی جائے تاکہ کفارومنافقین پر رعب پڑے۔ (2) حضرت امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کی اقامت ترک کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ یہ اس مسلمان کی عین سعادت ہے جسے وہاں اطمینان کے ساتھ اقامت مل جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے بنو سلمہ کی نقل مکانی کو اسی لیے ناپسند فرمایا، البتہ دعوت دین اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے اگر مدینہ طیبہ کی اقامت چھوڑنی پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ متعدد صحابۂ کرام ؓ نے دعوت و تبلیغ کے لیے مدینہ طیبہ کو چھوڑ دیا تھا۔ (3) مدینے سے باہر رہتے ہوئے بھی اپنے دل میں اس کی محبت رکھنا عین ایمان ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں مروان بن معاویہ فزاری نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے خبر دی اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ بنو سلمہ نے چاہا کہ اپنے دور والے مکانات چھوڑ کر مسجد نبوی سے قریب اقامت اختیار کرلیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ کیا کہ مدینہ کے کسی حصہ سے بھی رہائش ترک کی جائے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بنو سلمہ ! تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے، چنانچہ بنوسلمہ نے (اپنی اصلی اقامت گاہ میں ) رہائش باقی رکھی۔
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ مدینہ کی آبادی سب طرف سے قائم رہے اور اس میں ترقی ہوتی جائے تاکہ کافروں اور منافقوں پر رعب پڑے، حضرت امام بخاری ؒ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ مدینہ کی اقامت ترک کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ یہ اس مسلمان کی عین سعادت ہے جس کو وہاں اطمینان کے ساتھ سکونت مل جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): (The people of) Bani Salama intended to shift near the mosque (of the Prophet) but Allah's Apostle (ﷺ) disliked to see Madinah vacated and said, "O the people of Bani Salama! Don't you think that you will be rewarded for your footsteps which you take towards the mosque?" So, they stayed at their old places.