مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1888.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض پر ہوگا۔‘‘
تشریح:
(1) شارحین نے اس حدیث کے کئی ایک مفہوم بیان کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ کے گھر اور منبر کا درمیانی علاقہ نزول رحمت اور حصول سعادت میں جنت کے باغ کی طرح ہے۔ ٭ اس میں عبادت کرنے سے انسان جنت میں پہنچ جاتا ہے۔ ٭ مذکورہ مقام بعینہ جنت میں منتقل ہو جائے گا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے سکونت مدینہ کی ترغیب دلانا ہے کیونکہ یہ باب بلا عنوان ہے جو پہلے عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث کے آخر میں ہے: ’’میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔‘‘ اکثر علماء نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ یہ دنیا والا منبر حوض کوثر پر منتقل ہو جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسی معنی کو راجح قرار دیا ہے اگرچہ دیگر کئی معنی بھی بیان کیے گئے ہیں۔ (فتح الباري:130/4) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حوض کوثر کا پانی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں نصیب کرے۔ آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1834
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1888
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1888
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1888
تمہید کتاب
دور جاہلیت میں مدینہ طیبہ کا نام یثرب تھا۔ یہ لفظ تثريب سے مشتق ہے جس کے معنی توبیخ و ملامت کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں آنے والوں کو ملامت کیا کرتے تھے کیونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، لیکن یہ نام مدینہ طیبہ کے شایان شان نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس نام کی نسبت منافقین کی طرف کی ہے اور اسے بطور حکایت نقل کیا ہے۔ (الاحزاب13:33) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی تشریف آوری کے بعد اس نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اس کا نام طیبہ رکھا۔ (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3356(1384)) مسند ابی داود طیالسی اور معجم الکبیر طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله أمرني أن أسمي المدينة طيبة) "یقینا اللہ ذوالجلال نے مجھے اس کا نام طیبہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔" (صحیح الجامع الصغیر للالبانی،حدیث:1723) ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کا نام طابہ منتخب کیا ہے۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3357(1385)) طابہ اور طیبہ دونوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں، چنانچہ مدینہ طیبہ میں قلوب و اذہان کے لیے جو سکون و اطمینان اور خوشگواری ہے وہ اسی شہر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی ہے: "اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ مزید اتنے کی دعا کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3334(1373)) قرآن کریم میں مکہ کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کو وہاں بسا کر کی تھی۔ وہ اس طرح ہے: "اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و الفت ڈال دے اور یہاں ان کی ضرورت کے مطابق پھل مہیا کر، نیز یہاں کے لیے امن و سلامتی مقدر فرما۔" (ابراھیم37:14) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی خیر و برکت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی: "اے اللہ! مدینہ طیبہ میں مکہ مکرمہ کے اعتبار سے دو چند خیروبرکت عطا فرما۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3326(1369))آپ کی اس دعا کا ثمرہ ہے کہ دنیا بھر میں جن اہل ایمان کو مکہ سے عقیدت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے محبت ہے اور اس محبوبیت میں مدینہ طیبہ کا حصہ مکہ مکرمہ سے یقینا زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے قابل احترام ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے حرم قرار دیے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کا درمیانی رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں کسی قسم کی خونریزی نہ کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور چارے کی ضرورت کے علاوہ یہاں درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3336(1374)) اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقے کی طرح واجب الاحترام ہے اور وہاں ہر وہ اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے منافی ہو لیکن اس کے احکام مکہ جیسے نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ میں جانوروں کے چارے کے لیے درختوں کے پتے جھاڑے جا سکتے ہیں جبکہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مزید فرمایا: "میرا جو امتی ایمان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرے گا اور وہاں پڑا رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3339(1374)) سفارش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دے اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی تالیفات میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد "فضائل مدینہ" کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت و حرمت پر مشتمل احادیث بیان کرتے ہیں۔ اسی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی مسائل حج و عمرہ کے بعد کتاب فضائل المدینۃ کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت پر مشتمل چھبیس احادیث بیان کی ہیں۔ پھر ان پر بارہ چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کیے ہیں جن میں دو بلا عنوان ہیں۔ عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ کا قابل احترام ہونا۔ ٭ مدینہ طیبہ کی فضیلت، نیز وہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ طابہ ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کے دو کنارے۔ ٭ جس نے مدینہ طیبہ سے اعراض کیا۔ ٭ ایمان مدینہ طیبہ کی طرف سمٹ آئے گا۔ ٭ اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے کا گناہ۔ ٭ مدینہ طیبہ کے محلات۔ ٭ مدینہ طیبہ میں دجال داخل نہیں ہو گا۔ ٭ مدینہ طیبہ خباثت کو دور کر دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کو بے آباد کرنے کی کراہت۔ ٭ بلا عنوان۔امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ چھبیس احادیث میں سے چار معلق اور بائیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں نو مکرر اور باقی سترہ خالص ہیں۔ ان میں سے دو احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بیان کیا ہے جس سے اس عنوان کے حسن اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔ اے اللہ! ہمیں حق پہچان کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض پر ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) شارحین نے اس حدیث کے کئی ایک مفہوم بیان کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ کے گھر اور منبر کا درمیانی علاقہ نزول رحمت اور حصول سعادت میں جنت کے باغ کی طرح ہے۔ ٭ اس میں عبادت کرنے سے انسان جنت میں پہنچ جاتا ہے۔ ٭ مذکورہ مقام بعینہ جنت میں منتقل ہو جائے گا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے سکونت مدینہ کی ترغیب دلانا ہے کیونکہ یہ باب بلا عنوان ہے جو پہلے عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث کے آخر میں ہے: ’’میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔‘‘ اکثر علماء نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ یہ دنیا والا منبر حوض کوثر پر منتقل ہو جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسی معنی کو راجح قرار دیا ہے اگرچہ دیگر کئی معنی بھی بیان کیے گئے ہیں۔ (فتح الباري:130/4) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حوض کوثر کا پانی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں نصیب کرے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عمر نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض (کوثر ) پر ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
گھر سے مراد حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ ہے، جہاں آپ آرام فرما ہیں۔ ابن عساکر کی روایت میں یوں ہے کہ میری قبر اور منبر کے درمیان ایک کیاری ہے جنت کی کیاریوں میں سے۔ اور طبرانی نے ابن عمر ؓ سے نکالا اس میں بھی قبر کا لفظ ہے اللہ پاک نے آپ کو پہلے ہی سے آگاہ فرما دیا تھا کہ آپ اس حجرہ میں قیامت تک آرام فرمائیں گے۔ بیان کردہ مبارک قطعہ حقیقتاً جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ بعض نے کہا اس کی برکت اور خوبی کی وجہ سے مجازاً ایسا کہا گیا یا اس لیے کہ وہاں عبادت کرنا خصوصی طور پر دخول جنت کا ذریعہ ہے۔ منبر کے بارے میں جو فرمایا قدرت خداوندی سے یہ بھی بعید نہیں کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر اس منبر کو دوبارہ مہیا کرکے آپ ﷺ کے لیے رکھ دیا جائے ( واللہ أعلم بمرادہ ) باب کا مقصد یہاں سکونت مدینہ کی ترغیب دلانا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "There is a garden from the gardens of Paradise between my house and my pulpit, and my pulpit is on my Lake Fount (Al-Kauthar)."